ساتھی میرے
ساتھی میرے
آؤ کچھ اور دیر میرا ساتھ نبھاؤ
ساحل زندگی پر چند قدم اور میرے سنگ ملاؤ
ہجر کی تیز سرخ آندھی چل پڑی ہے
اور میری ان یتیم و بیکس تنہائیوں میں
بیوہ ماں کی طرح بین کرتی پاگل ہوائیں بولتی ہیں
میں ساکت و جامد کھڑی
خاموش لب بھینچے تجھے دیکھتی ہوں
اور سوچتی ہوں
کاش ایسا ہو
تو پڑھ سکے میری سوچ کو
ہیں بچیں اب فقط چند مستعار سانسیں میری
نظر میں بھی ہیں کچھ عجب سی دھندلاہٹیں
ضرب پڑ چکی ہے نقارۂ کوچ پر
عزرائیل نے جکڑ رکھی ہیں میری یہ بانہیں
میں حد سے زیادہ مجبور ہوں
تم تو سمجھ جاؤ ان مجبوریوں کو
چلو اس بہتے وقت کو امر بناؤ
ساتھ میرے چند اور ساعتیں بتاؤ
آج پھر سنگ میرے تارے گنواؤ
ہے اب میرا سفر مجاز سے حقیقی کی جانب
ایک الوداعی بوسہ
میرے ماتھے پر ثبت کرو
مجھے اپنی اس محبت سے آزاد کرو
میری مٹھیوں میں ہیں بہت سی یادوں کے جگنو
کئی رنگ دار تتلیوں کے رنگ
مجھے ان تمام یادوں سے آزاد کرو
ایک بار مٹھی کھول کر مجھے اڑ جانے دو
ساتھی میرے
بس اتنا ہی تمہارا میرا ساتھ تھا
چلو اب تم واپس لوٹ جاؤ
ڈھلتے سورج کی نارنجی روشنی میں
میں بھی لوٹ جاتی ہوں
افق کے اس پار
دوبارہ ملنے کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.