ساون
تیری بھیگی پلکیں
جھکی ہوئی اچھی لگتی ہیں
ٹپ ٹپ گرتی نرمل بوندیں
شب بھر ٹین کی ٹھنڈی چھت پر
نازک سی پوروں سے ٹائپ کرتی ہوئی
اچھی لگتی ہیں
گئے دنوں کے نام
معطر خط لکھتی اچھی لگتی ہیں
چھت کے نیلے کاغذ کے نیچے میں خود بھی
جیسے اک میلا سا کورا کاغذ ہوں
میرے بدن پر
پوروں کی میٹھی ضربوں سے
لفظوں کے سائے اترے ہیں
خط کے سارے شبد مجھے پہچان گئے ہیں
کیا لکھا ہے
کیا جانوں میں کیا لکھا ہے
کون سی ایسی انہونی سی بات تھی جس نے
برسوں پہلے
نہ کہنے کے پلو سے خود کو باندھا تھا
اور پھر دل کی ڈولی میں محبوس ہوئی تھی
اتنے لمبے بوجھل سالوں
خود سے بھی وہ چھپی رہی تھی
آج اسے کس مجبوری نے
لفظوں کے لب چھو لینے پر اکسایا ہے
گئے دنوں کے نام یہ نامہ لکھوایا ہے
ساون کا یہ آخری دن ہے
کل جب بھادوں آ جائے گا
ٹین کی چھت پر اپنے اجلے پر پھیلانا
آنے والی سرخ رتوں کے
خوابوں میں جب کھو جائے گا
سب آوازیں تھم جائیں گی
پلکیں تھک کر سو جائیں گی
گئے دنوں کا نام
منوں مٹی کے نیچے دب جائے گا
اگلا ساون کب آئے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.