فلک پر انجم تاباں تھے مصروف درخشانی
برستا تھا زمیں پر آسماں سے نور کا پانی
شعاعیں اپنا سیمیں جال دنیا پر بچھاتی تھیں
در و دیوار پر پڑ کر طلسم شب مٹاتی تھیں
کچھ ایسے اوڑھ رکھی تھی فضا نے نور کی چادر
گماں ہوتا تھا جس پر یہ کہ ہے بلور کی چادر
لیے ہاتھوں میں نیزے چاند کی کرنیں جھپٹتی تھیں
سیہ پوشان تاریکی کی ہر صف کو الٹتی تھیں
سیاہی کا کہیں اشجار کے سائے میں ڈیرا تھا
کہیں تاریک غاروں میں ملا اس کو بسیرا تھا
جو منظر تھا وہ سیمیں تھا جو نظارہ تھا سیمابی
منانے کو تھی فطرت آج گویا جشن مہتابی
بڑھے آتے تھے لشکر نور کے کرنوں کو فوجیں تھیں
سمندر زور پر تھا اور طوفاں خیز موجیں تھیں
زمیں پر آسماں پر کوہ پر وادی پہ دریا پر
چمن پر شہر پر بستی پہ ویرانے پہ صحرا پر
مساجد اور منادر ہوٹلوں اور قہوہ خانوں پر
غریبوں کے گھروں پر اور امیروں کے مکانوں پر
سمندر کے کناروں اور پہاڑوں کی چٹانوں پر
جہازوں کے نشانوں کشتیوں کے بادبانوں پر
غرض ہر جسم پر ہر جسم پر تھا نور کا عالم
جہاں کے ذرے ذرے پر تھا برق نور کا عالم
نظر کے سامنے تھا اس طرح نظارۂ فطرت
کہ فطرت جھولتی ہے آج خود گہوارۂ فطرت
فلک نقاشیوں کے رنگ جب فطرت میں بھرتا تھا
میں ان نقاشیوں میں جستجوئے شعر کرتا تھا
مناظر دیکھ کر میں ہو رہا تھا محو مدہوشی
مرے کانوں میں آتی تھی صدائے ساز خاموشی
- کتاب : Kulliyat-e-Arsh (Pg. 230)
- Author : Arsh Malsiyani
- مطبع : Ali Imran Chaudhary
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.