صدا بہ صحرا
سکھی پھر آ گئی رت جھولنے کی گنگنانے کی
سیہ آنکھوں کی تہ میں بجلیوں کے ڈوب جانے کی
سبک ہاتھوں سے مہندی کی ہری شاخیں جھکانے کی
لگن میں رنگ آنچل میں دھنک کے مسکرانے کی
امنگوں کے سبو سے قطرہ قطرہ مے ٹپکنے کی
گھنیرے گیسوؤں میں ادھ کھلی کلیاں سجانے کی
بیاباں سبزہ نوخیز سے آباد ہوتے ہیں
سکھی تم بھی جو دل اپنا بسا لیتیں تو کیا ہوتا
حیا ہے خوف ہے پندار ہے ضد ہے یہ کیا شے ہے
ہمیشہ التجائیں رائیگاں جاتی رہیں میری
کبھی میری خوشی کی بھی دعا لیتیں تو کیا ہوتا
یہ کیسی آگہی ہے جس کی مشعل ہاتھ میں لے کر
سدا تنہائیوں کے دیس میں پھرتی ہو آوارہ
یہ اک بیم شکست خواب یہ چھو لوں تو کیا ہوگا
اسی سے ہو گئی ہر عشرت موجود صد پارہ
بجز اک روح نالاں چشم حیراں عمر سرگرداں
نہیں تقصیر پرواز نظر کا کوئی کفارہ
قرار قلب زار ہند وار برنائی یوناں
تجلئ آل ابراہیم پر پیہم جو اتری تھی
تڑپتا شعلہ گوں خوں جاہلیت کی نواؤں کا
چمک ریگ رواں کی سر بلندی نخل صحرا کی
دیار حافظؔ و خیامؔ کی اڑتی ہوئی خوشبو
نگاہ غالبؔ و اقبالؔ کی گیتی شکن مستی
سرور جستجو مغرب کی متوالی ہواؤں کا
سبھی پایا مگر درمان درد بے بسی مشکل
یہ اک آسودگی چہرے پہ یہ ٹھہراؤ آنکھوں میں
یہ اشکوں سے بھری چھاگل یہ بے پردا و خود سر دل
چٹانیں دہر کی آتش کو چھو کر بھی نہیں پگھلیں
نہ جانے کون سے اجزا ہیں اس افتاد میں شامل
یہ نرمل جل کا چشمہ یہ دل بے قید و بے پایاں
اسے بھی سمت ملتی اس کی بھی اک رہ گزر ہوتی
شباب اپنے جلال حشر ساماں کی قسم کھاتا
شرافت بے زباں فطرت کے دکھ کی چارہ گر ہوتی
نہ ہوتی آرزو نیرنگ ہستی کی تماشائی
وہ اس بڑھتے ہمکتے کارواں کی ہم سفر ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.