سفر
یہ آگ پانی ہوا یہ مٹی
انہیں سے میرا خمیر اٹھا
انہیں میں تحلیل ہو نہ جاؤں
یہ آگ جو نور کا لہو ہے
جو میری رگ رگ میں موجزن ہے
اسی کی لو میں یہ میں نے دیکھا
مجھے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بلند تر
نور کی پر اسرار سی اک انگلی بلا رہی تھی
میں اپنے بوجھل کثیف کپڑوں کو خون کی آگ میں جلا کر
ہوا کے مانند کوہساروں کی رفعتوں کی طرف بڑھا
آج کلا کوہ پر کھڑا ہوں
مرے اور انگشت نور کے درمیان اک جست فاصلہ ہے
اور اب زمیں کی کشش
جہاں مرگ کا سکوں ہے
مرے بدن کو بلا رہی ہے
جو لوٹ کر دیکھتا ہوں
ان گہری تیر و تار گھاٹیوں کی طرف
جہاں سے گزر کے ان چوٹیوں پہ پہنچا
تو ایسے لگتا ہے
گر میں اس خاکداں کو لوٹا
تو پھر پلٹ کے نہ آ سکوں گا
بس ایک ہی جست فاصلہ ہے
جو آج اس کو میں پار کر لوں
تو ابر بن کر برس سکوں
جس کے آب پارے
شجر شجر کی نمو کریں گے
صدف صدف میں گہر بنیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.