Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفیرِ لیلیٰ-۳

علی اکبر ناطق

سفیرِ لیلیٰ-۳

علی اکبر ناطق

MORE BYعلی اکبر ناطق

    سفیر لیلیٰ یہ کیا ہوا ہے

    شبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں

    دلوں کے دھاگے اکھڑ گئے ہیں

    شفیق آنسو نہیں بچے ہیں غموں کے لہجے بدل گئے ہیں

    تمہی بتاؤ کہ اس کھنڈر میں جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں

    جہاں سمندر ہوں تیرگی کے

    سیاہ جالوں کے بادباں ہوں

    جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں باتیں کرتی ہوں مردہ روحیں

    سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ جہاں اکیلا ہو داستاں گو

    وہ داستاں گو جسے کہانی کے سب زمانوں پہ دسترس ہو

    شب رفاقت میں طول قصہ چراغ جلنے تلک سنائے

    جسے زبان ہنر کا سودا ہو زندگی کو سوال سمجھے

    وہی اکیلا ہو اور خموشی ہزار صدیوں کی سانس روکے

    وہ چپ لگی ہو کہ موت بام فلک پہ بیٹھی زمیں کے سائے سے کانپتی ہو

    سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ وہ ایسے دوزخ سے کیسے نپٹے

    دیار لیلیٰ سے آئے نامے کی نو عبارت کو کیسے پڑھ لے

    پرانے لفظوں کے استعاروں میں گم محبت کو کیونکے سمجھے

    سفیر لیلیٰ ابھی ملامت کا وقت آئے گا دیکھ لینا

    اگر مصر ہو تو آؤ دیکھو

    یہاں پہ بیٹھو یہ نامے رکھ دو

    یہیں پہ رکھ دو انہی سلوں پر

    کہ اس جگہ پر ہماری قربت کے دن ملے تھے

    وہ دن یہیں پر جدا ہوئے تھے انہی سلوں پر

    اور اب ذرا تم نظر اٹھاؤ مجھے بتاؤ تمہارا ناقہ کہاں گیا ہے

    بلند ٹخنوں سے زرد ریتی پہ چلنے والا صبیح ناقہ

    وہ سرخ ناقہ سوار ہو کر تم آئے جس پر بری سرا میں

    وہی، کہ جس کی مہار باندھی تھی تم نے بوسیدہ استخواں سے

    وہ اسپ تازی کے استخواں تھے

    مجھے بتاؤ سفیر لیلیٰ کدھر گیا وہ

    ادھر تو دیکھو وہ ہڈیوں کا ہجوم دیکھو

    وہی تمہارا عزیز ساتھی سفر کا مونس

    پہ اب نہیں ہے

    اور اب اٹھاؤ سلوں سے نامے

    پڑھو عبارت جو پڑھ سکو تو

    کیا ڈر گئے ہو کہ سطح کاغذ پہ جز سیاہی کے کچھ نہیں ہے

    خجل ہو اس پر کہ کیوں عبارت غبار ہو کر نظر سے بھاگی

    سفیر لیلیٰ یہ سب کرشمے اسی کھنڈر نے مری جبیں پر لکھے ہوئے ہیں

    یہی عجائب ہیں جن کے صدقے یہاں پرندے نہ دیکھ پاؤ گے

    اور صدیوں تلک نہ اترے گی یاں سواری

    نہ چوب خیمہ گڑے گی یاں پر

    سفیر لیلیٰ یہ میرے دن ہیں

    سفیر لیلیٰ یہ میری راتیں

    اور اب بتاؤ کہ اس اذیت میں کس محبت کے خواب دیکھوں

    میں کن خداؤں سے نور مانگوں

    مگر یہ سب کچھ پرانے قصے پرائی بستی کے مردہ قضیے

    تمہیں فسانوں سے کیا لگاؤ

    تمہیں تو مطلب ہے اپنے ناقہ سے اور نامے کی اس عبارت سے

    سطح کاغذ سے جو اڑی ہے

    سفیر لیلیٰ تمہارا ناقہ

    میں اس کے مرنے پر غم زدہ ہوں

    تمہارے رنج و الم سے واقف بڑے خساروں کو دیکھتا ہوں

    سو آؤ اس کی تلافی کر دوں یہ میرے شانے ہیں بیٹھ جاؤ

    تمہیں خرابے کی کار گہہ سے نکال آؤں

    دیار لیلیٰ کو جانے والی حبیب راہوں پہ چھوڑ آؤں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے