سہیلی بوجھ پہیلی
پرچم سر میدان وغا کھول رہا ہے
منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے
کیا سیل بغاوت ہے مریدوں کی صفوں میں
پیران تہی دست کا دل ڈول رہا ہے
اے وائے صبا عقرب جرارہ چمن میں
صرصر کے اشارات پہ بس گھول رہا ہے
افرنگ کے دیرینہ غلاموں کی رضا پر
خود پیر حرم بند قبا کھول رہا ہے
کچھ بات ہی ایسی ہے کہ پیمانۂ زر میں
اک رند تنک ظرف لہو تول رہا ہے
بزغالۂ افرنگ شغالوں کے جلو میں
کس ٹھاٹھ سے ضرغام صفت بول رہا ہے
تاریخ کے ویرانۂ آباد میں شورشؔ
کچھ قیمتی موتی ہیں قلم رول رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.