لوگ کہتے ہیں مورکھ
ملاقات کا سلسلہ ختم ہے
مگر اپنے جینے کا مقصد ملاقات ہے
تم ملو گے
کبھی ایسا رستہ بھی ہم کو سمجھاؤ
جہاں تم بھی آؤ
بہت سانس جھونکا بہت لفظ پھونکے
شب و روز کے ان گنت زرد پتوں کے
ڈھیروں سے ڈھانپا کیے
جسم اپنا
لبادوں کی صورت بہت ہم نے پہنا اتارا
بہت منزلیں چھوڑ دیں
اس لیے ہم نہ ٹھہرے
کہ تیری طرف ہم روانہ رہیں
مگر اپنی ہجرت کی منزل کبھی آئے گی بھی
کہ رسیا ہے تو بھی
فقط ہجر کی داستاں کا
اساطیر کی شکل و صورت میں
دہرا کے ہم کو سناتا رہے گا
وہی نغمۂ سوز و ساز
سلسلہ ہائے دور و دراز
رات کے نو بجے تھے
ترے در پہ سر رکھ کے سجدے میں رویا کہ سویا
تو صبح کے نو بج گئے
رات کو دن کے دامن میں دھویا
مٹائی سیاہی بہت قلب و جاں کی
تری روح کے سانس کی ہے قسم
جو تو نے کبھی مجھ میں پھونکی
اسی نغمۂ نور سے
اپنی ہستی کے ذرے پرونے کی کوشش بہت کی
مگر خاک میں بھی تو آلودگی ہے
وجود اپنے زنداں سے پائے گا کیسے نجات
کسی طور ممکن بھی ہے
کہ خرد خون اور خاک
خواہش خیال اور خواب
ملا دیں مجھے میری مٹی کی خوشبو سے
خود کشی کی کئی صورتوں سے گزرنا پڑا ہے
خودی کو
سفر کر کے دیکھا کئی عالموں میں
ستاروں سے آگے
جہانوں سے آگے
خودی کی خدائی فقط خودکشی ہے
تری آرزو کی وہی تشنگی ہے
یہی تشنگی تیرے در سے
کہیں سر اٹھا دے نہ میرا
دعا دے
اگر میں ہوں تیرا
اگر تو ہے میرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.