سلامت سبوچہ ترا ساقیا
ازل بھولا بسرا سا اک خواب ہی
سہی
بند اک باب ہی وہ سدا کے لیے
مگر بارہا
حرف حق لوح جاں سے مٹایا گیا جب
بہ انواع جبر
ازل ہی وہ مصرعہ اٹھانا ابد تک جسے ناگزیر
دھماکے سے پہلے کی اک سنسنی
بنی امتحاں گاہ میں
خوف و دہشت کے ہم دوش اک ذمہ داری کا بار
یہاں ہم نہ ہوتے جو امیدوار
تو ہوتے کوئی اور اپنے ہی وہ ہم نژاد
زمیں آسماں فخر سے اور غبار پس و پیش ہم
دیکھتے ان کو کس رشک سے
سوالات پیچاک سے ارتقا کے جڑے بے شمار
وہ حل کر رہے ہیں
فطانت میں شامل دیانت کے ساتھ
ستاروں کی تقدیم کو کس نے دیکھا ہے
لذت کش انتظار
جریدے میں ثبت اپنے نام
جہاں دیکھ پائیں گے
سطح وجود
وہ ہے دور کتنی
جہاں جا کے عالم تمام
ترا میکدہ ساقیا
ابھی آب و گل میں گندھی
اور ابھی پردۂ غیب سے جھانکتی یاد داشت
بہت اس نے دیکھے طلوع و غروب
بہت پیشہ ور سچ کا پھیلا ہوا کاروبار
جرائم کی جن کے تناور تنے
یہ فنی مہارت کی اک برتری
اور وہ پاور سپر
مکافات کی ان کے سر پر جو رت آ گئی
ستوں درستوں تھا دھواں اگ رہا
ان کے تھالوں کے بیچ
نتیجہ کی فہرست سے نام کتنے
کہ بجتا تھا ڈنکا کبھی جن کا
ہو کر رہے لاپتہ
نہ کوئی دھماکہ نہ کوئی جھماکہ
نہ دنیا دلہن
پکڑ کر جکڑ کر جلائی گئی
قلم کے نوشتے سے پنپا ہوا خواب زار
وہیں تک ہے سرسبز
کھویا قلم نے جہاں تک نہیں اعتبار
مگر پاسبان مفادات صید
قلم نے جہاں لکھ دیا عرف صیاد کا
وہیں شاخ زیتون
گلدان آرائشی کا اثاثہ بنی
قلم کو بچا
حرف حق کی سزا
بھگتنے کی خاطر سدا
ساقیا
سلامت سبوچہ ترا
- کتاب : Silsila-e-makalmat (Pg. 89)
- Author : Shafique Fatma Shora
- مطبع : Educational Publishing House (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.