سمجھوتے کے دالانوں کی
ہر چیز سجل سی ہوتی ہے
ہر طاق سجا سا لگتا ہے
اک فرض مسلسل کی دھن پر
دو پیر تھرکتے رہتے ہیں
ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے
دو بول
کھنکتے رہتے ہیں
ہمت کی چٹختی شاخوں سے
کچے دن توڑے جاتے ہیں
اور پال لگائی جاتی ہے
راتوں کے بان کے بستر پر
تہذیب کے گونگے جسموں کی
سنجاب بچھائی جاتی ہے
ہر چیز سجل لگتی ہے مگر
اک ہرا بھرا شاداب بدن
دیکھے میں گھنیرا لگتا ہے
اور اندر گلتا جاتا ہے
گردش میں لہو کی تہہ در تہہ
اک ریت اترتی جاتی ہے
اور سلوٹ سلوٹ سانسو میں
بے رحم گھنے سناٹے کی
اک کائی سی جمتی جاتی ہے
سمجھوتے کے
چکنے اجلے دالانوں میں
اک جسم دھرا رہ جاتا ہے
اور اندر اندر اک دیمک
ساری رونق کھا جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.