سمندر اگر میرے اندر آ گرے
تو پایاب لہروں میں ڈھل کے سلگنے لگے
پیاس کے بے نشاں دشت میں
وہیل مچھلی کی صورت تڑپنے لگے
ہارپونوں سے نیزوں سے چھلنی بدن پر
دہکتی ہوئی ریت کے تیز چر کے سہے
اور پھر ریت پر جھاگ کے کچھ نشاں چھوڑ کر
تا ابد سر بریدہ سے ساحل کے سائے میں
ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت میں کھویا رہے
یہ ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت بھی کیا ہے
نگاہیں اٹھاؤں تو حد نظر تک
ازل اور ابد کے ستونوں پہ باریک سا ایک خیمہ تنا ہے
نہ ہونے کا یہ روپ کتنا نیا ہے
اور خیمے کے اندر
کروڑوں ستاروں کا میلہ لگا ہے
یہ ہونے کا بہروپ لا انتہا ہے
مرا جسم
ریشم کا صد چاک خیمہ
کسی بے کراں دشت میں بے سہارا کھڑا ہے
مگر جب میں آنکھیں جھکاؤں
تو اس سرد خیمے کے اندر
کروڑوں تڑپتے ہوئے تند ذروں کا اک دشت پھیلا ہوا ہے
یہ ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت
عجب ماجرا ہے
- کتاب : Nirdbaan (Pg. 53)
- Author : Wazir Agha
- مطبع : Nusrat Anwar (1979)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.