سمندر
ہے سمندر دید میں تیری فسوں کاری بہت
دیکھنے والوں کی کرتا ہے تو دل داری بہت
ہر اداسی میں تری موجوں کا دیکھا ہے فسوں
مضطرب ذہنوں کو دیتی ہیں تری لہریں سکوں
کیا بتاؤں تیری موجوں کی روانی کا عمل
گلستان شیخ سعدیؔ ہے کہ رومیؔ کی غزل
نیم شب مہتاب کی کرنوں کا وہ عکس جمیل
تہ بہ تہ پگھلی ہوئی چاندی ہے رشک سلسبیل
تجھ میں آ کر مل گیا آب روان مشکبو
جو رہا محو سفر دریا بہ دریا جو بہ جو
گود سے تیری جو پانی اٹھ کے بادل بن گیا
کشت پر بارش تو برگ و گل پہ شبنم بن گیا
فطرت انسان کا عکاس ہے تیرا جنوں
گہ تلاطم موجزن لہروں میں گہ رشک سکوں
نیلگوں گوشے سے پھر خاور صعود آمادہ ہے
شوخئ فطرت کی عکاسی کا تو دل دادہ ہے
مہر کی تابانیاں جب غسل دیتی ہیں تجھے
ڈھانپ لیتے ہیں حیا سے گھور بادل کے پرے
تیرے سینے پر یہ لہریں موجزن ہیں کس لئے
سنگ ساحل پر یوں ہی طاقت شکن ہیں کس لئے
بڑھ رہی ہے موج جو ساحل سے ٹکرا جائے گی
تیز رو انسانوں کو شاید یہ سمجھا جائے گی
جوش میں بڑھتے ہیں جو عقل و خرد سے بے نیاز
کر نہیں پاتے وہ اپنی قوتوں کا ارتکاز
نوع انساں کی خوشی مرہون منت ہے تری
دوسروں پر ہو عطا گویا یہ جنت ہے تری
چیرتے رہتے ہیں سینے کو ترے جنگی جہاز
حضرت انساں کی صناعی ہے کیسی کارساز
زندگی پانی سے ہے اور آب کا منبع ہے تو
دی بزرگی تجھ کو خالق نے بہت ارفع ہے تو
خشک اور پیاسی زمیں تیری عطا سے شاد ہے
جس جگہ تیرا عمل ہے وہ جگہ آباد ہے
تو بڑا تو ہے تکبر سے مگر محفوظ ہے
عظمت مالک تجھے ہر آن یوں ملحوظ ہے
تیری موجیں اٹھ کے جھکنے میں بہت ہی تیز ہیں
بارگاہ حضرت خالق میں سجدہ ریز ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.