سنبھالا
کتنا خوش تھا کہ رگ سنگ سے ٹپکا ہے لہو
میں ہنسا تھا کہ کسی آنکھ میں آئے آنسو
میں نے سمجھا کہ تڑپتا ہوا بسمل کوئی
زیست اور موت کی لذت کے لئے تشنہ ہے
کوئی کہتا تھا کہ گلشن میں کھلا ہے اک پھول
درد فن بیچ دیا میں نے مسرت کے لئے
میری راتوں مری صبحوں مری شاموں نے مگر
موت کے راگ میں پھر گیت سنایا مجھ کو
اور رو رو کے بتایا کہ مسرت کیسی
منزل و جادہ ہیں کیا اور مسافت کیسی
یہ غلط ہے کہ ترے خون جگر سے پہلے
سینۂ سنگ ہو شق اور لہو بہ نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.