صندل کی خوشبو اور سانپ
کوئی افعی ہے
جو چندن کے پیڑ کی خوشبو سے مخمور ہو اٹھتا ہے
اس کی شاخوں اس کے پتوں سے لپٹ کر
نہ جانے کیا ڈھونڈتا رہتا ہے
جیسے چاند کی تاک میں ہر دم چکور رہتا ہے
جیسے چاند کی گھات میں کوئی میگھ کا کالا چور رہتا ہے
اور پھر ایک پل ایسا بھی آتا ہے
جب وہ چاند کو اپنی بانہوں میں بھر لیتا ہے
دنیا کی نگاہوں سے بچا کر اپنی آغوش میں ڈھانپ لیتا ہے
سفیدی ظلمت میں حل ہو جاتی ہے
روشنی تاریکی میں بدل جاتی ہے
لیکن
یہ تاریکی ہی اصلاً تخلیق کا منبع ہے
من کا افعی بھی
رہنا چاہتا ہے
تیرے گرد و پیش
گو تری زلف کوئی شنکر کی جٹا بھی نہیں
پھر کیوں یہ افعی
تیری گردن تیرے ناف تن میں حمائل ہونا چاہتا ہے
بار بار
تیرے صندل بدن کی خوشبو
کوئی امرت کوئی سوم رس بھی نہیں،
پھر کیوں یہ دشٹ راہو کیتو کی طرح
پینا چاہتا ہے اسے بوند بوند چال بازی سے
تاریکی ہی تیرا مقدر ٹھہرا
تیرا مسکن بھی تاریک ہے
اے ذوالقرنین
ظلمت ہی تو آب حیات کا سر چشمہ ہے
تیرا سکون تیرا قرار بھی تاریک ہے
تاریکی ہی اصل منبع نور ہے
تخلیق کائنات کا شعور ہے
بادل جب چھٹتا ہے
چاند اور بھی دمکتا ہے
میگھ دوت کے کالے گھنے حلقے سے نکل کر
چاند اور بھی دودھیا پر نور ہو جاتا ہے
صندل کے شجر سے لپٹ کے سانپ
اور بھی مسرور ہو جاتا ہے
لا شعور سے شعور کا سفر ختم ہو جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.