سناٹا چیخ اٹھتا ہے
ہوا لال اینٹوں کی گلیوں سے گزرتی
سیلن زدہ کوٹھریوں میں بچے جنتی ہے
گھٹی گھٹی سانسیں لیتی ہوئی
جب باہر نکلتی ہے
تو ٹھنڈ سے کبڑی ہو چکی ہوتی ہے
سیدھا چلنے کی خواہش میں
اونچے نیچے رستوں پر
گھوڑوں کے سموں تلے
کیچڑ میں لت پت سر پٹختی
اٹھنے کی کوشش کرتی ہے
اور رینگتے رینگتے کسی حویلی میں جا گھستی ہے
جہاں رات کا سناٹا بین کر رہا ہوتا ہے
قدموں کی مانوس سی چاپوں سے
حویلی کے سناٹوں میں
گونج کی دراڑیں پڑنے لگتی ہیں
ہوا کسے ڈھونڈھتی ہے
وہ جانتی ہے کہ پساروں میں اجداد کے فن کا لوہا
صندوقوں میں بھرا پڑا ہے
پرکھوں کے افکار
شیلفوں پر قرینے سے سجے ہیں
ایک بڑے کمرے میں گول میز پر
کروشیے سے کاڑھے ہوئے رومال میں
اس نے اپنی آنکھیں بھی کاڑھ دی ہیں
وہ روتی ہوئی
رومال میں کاڑھی ہوئی آنکھوں کو چومتی ہے
اور حویلی کے در و دیوار سے لپٹی ہوئی
آخری نشانی تلاش کر رہی ہوتی ہے
کہ سناٹا چیخ اٹھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.