سپید پھول
سپید پھول رات کے سیاہ پانیوں سے
آرزو کی آبشار سے
لڑھکتا تیرتا بھٹکتا پتھروں کی رہ گزر سے جائے گا
تو روزن فراز کوہسار سے
نظر اٹھا کے اس کو دیکھنا
وہ کون تھا
فغاں کے مرحلوں میں اس کو کیا ہوا
وہ برگ برگ ہوگا زخم زخم سیل خوں صدائے خون
وہ شاخ سے بریدہ ہو گیا تو ایک خواب تھا
وہ خواب سے بریدہ ہو گیا تو صرف رہ رو ندائے ماورائے قرب و لمس
صرف برگ آسا آخری صدائے دل
وہ سبز تھا نہ سرخ تھا نہ زرد تھا
سپید تھا
سیاہ گر نہ ہو سکا تو محض اتفاق تھا یہ حادثہ
یہ ساری باتیں
تم سے کہہ رہا ہوں
تم جو صرف آنکھ ہو
فراز کوہ پر تمہارا روئے آفتاب ہے
میں پھول ہوں سپید پھول
کون ہے مرا وہاں
میں آبشار کی جلا وطن اداس سلطنت سے
وادیوں کی سمت شام سے رواں
مقدروں کی اے ستم ظریف ساعت گراں
خدا کرے کہ آج تم بھی چشم ناز سے
فراز کوہسار سے
سپید پھول کا یہ آخری سفر
مشاہدے کے آئنے میں دیکھ لو
میں پھول میں سپید پھول وادیوں میں
آب جو کی نرم رو اداسیوں میں ریزہ ریزہ
تم کو یاد کر کے
زیر آب کھل اٹھوں گا بحر بیکراں کے درمیان جشن وصل میں
مگر فراز کوہ کا نشیب کوہسار سے
مرے خدا مرا مری ہی منزلوں سے فاصلہ
کہاں رکے گا بے اماں مقدروں کا قافلہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.