گزر رہا تھا لکھنؤ کی ایک شاہراہ سے
نظر الجھ کے رہ گئی نگاہ مہر و ماہ سے
گلاب کے لباس میں پری اتر کے آ گئی
حیات بن کے آئی تھی حیات بن کے چھا گئی
فضا میں ارتعاش تھا دلوں کے اس گداز سے
کہ جیسے پی رہا تھا میں نگاہ نیم باز سے
ان احمریں لبوں پہ ایک رقص نا تمام تھا
سکوت سا سکوت تھا کلام سا کلام تھا
میں اس کی اس ادا سے خود حجاب کھا کے رہ گیا
وہ مسکرا کے رہ گئی میں سر جھکا کے رہ گیا
بڑھی وہ سائے کی طرح رواں دواں رواں دواں
میں اس کے پیچھے ہو لیا مثال گرد کارواں
میں چاہتا تھا حال دل سنا کے اس کو چوم لوں
پکڑ کے دونوں ہاتھوں کو فضا میں جھوم جھوم لوں
زبان دل سے پھر کہوں تمہیں مری بہار ہو
سکون قلب زار ہو سرور صد خمار ہو
دلوں کی دھڑکنوں میں اک عجیب اضطراب تھا
قدم بہک رہے تھے اور سامنے شباب تھا
میں اس سے یہ نہ کہہ سکا کہ تم مری حیات ہو
طلسم ہی فقط نہیں تمام کائنات ہو
حسین و مہ جبیں وہ ایک گل کے پاس رک گئی
نظر ملا کے ہنس پڑی گلوں کی شاخ جھک گئی
بصد ادا چلی گئی حسیں محل میں وہ پری
میں دل پکڑ کے رہ گیا بہ ایں خیال دلبری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.