سر زمین یاس
جینے سے دل بیزار ہے
ہر سانس اک آزار ہے
کتنی حزیں ہے زندگی
اندوہ گیں ہے زندگی
وہ بزم احباب وطن
وہ ہم نوایان سخن
آتے ہیں جس دم یاد اب
کرتے ہیں دل ناشاد اب
گزری ہوئی رنگینیاں
کھوئی ہوئی دلچسپیاں
پہروں رلاتی ہیں مجھے
اکثر ستاتی ہیں مجھے
وہ زمزمے وہ چہچہے
وہ روح افزا قہقہے
جب دل کو موت آئی نہ تھی
یوں بے حسی چھائی نہ تھی
کالج کی رنگیں وادیاں
وہ دل نشیں آبادیاں
وہ نازنینان وطن
زہرہ جبینان وطن
جن میں سے اک رنگیں قبا
آتش نفس آتش نوا
کر کے محبت آشنا
رنگ عقیدت آشنا
میرے دل ناکام کو
خوں گشتہ آلام کو
داغ جدائی دے گئی
ساری خدائی لے گئی
ان ساعتوں کی یاد میں
ان راحتوں کی یاد میں
مغموم سا رہتا ہوں میں
غم کی کسک سہتا ہوں میں
سنتا ہوں جب احباب سے
قصے غم ایام کے
بیتاب ہو جاتا ہوں میں
آہوں میں کھو جاتا ہوں میں
پھر وہ عزیز و اقربا
جو توڑ کر عہد وفا
احباب سے منہ موڑ کر
دنیا سے رشتہ توڑ کر
حد افق سے اس طرف
رنگ شفق سے اس طرف
اک وادئ خاموش کی
اک عالم بے ہوش کی
گہرائیوں میں سو گئے
تاریکیوں میں کھو گئے
ان کا تصور ناگہاں
لیتا ہے دل میں چٹکیاں
اور خوں رلاتا ہے مجھے
بے کل بناتا ہے مجھے
وہ گاؤں کی ہم جولیاں
مفلوک دہقاں زادیاں
جو دست فرط یاس سے
اور یورش افلاس سے
عصمت لٹا کر رہ گئیں
خود کو گنوا کر رہ گئیں
غمگیں جوانی بن گئیں
رسوا کہانی بن گئیں
ان سے کبھی گلیوں میں اب
ہوتا ہوں میں دو چار جب
نظریں جھکا لیتا ہوں میں
خود کو چھپا لیتا ہوں میں
کتنی حزیں ہے زندگی
اندوہ گیں ہے زندگی
- کتاب : Kulliyat-e-Sahir (Pg. 32)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.