سرائے
لرزتے کانپتے کمزور بوڑھے سورج کا
لہو بہا چکا قزاق آفریدۂ شب
نئی نویلی سہاگن کی مانگ کی مانند
سیاہ جھیل کے پانی میں سرخ سرخ لکیر
تمام کشتیاں ساحل کی سمت لوٹ گئیں
وہ دور چند گھروندوں کی چھوٹی سی بستی
بسی ہوئی ہے جو خوشبوئے ماہی و مے میں
ابھی ابھی یہ اندھیروں میں ڈوب جائے گی
پرندے اپنے بسیروں کی سمت اڑ بھی گئے
نہ بانسری ہے نہ بھیڑیں ہیں اور نہ چرواہے
گھنی گھنی سی اداسی تھکی تھکی سی یہ شام
ذرا ذرا سا اجالا ہے اب بھی لوٹ چلیں
اسی چٹان پہ کل کوئی اور بیٹھا تھا
اسی چٹان پہ کل کوئی اور بیٹھے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.