دوا کی شیشی میں
سورج
اداس کمرے میں چاند
اکھڑتی سانسوں میں رہ رہ کے
ایک نام کی گونج۔۔۔۔!
تمہارے خط کو کئی بار پڑھ چکا ہوں میں
کوئی فقیر کھڑا گڑگڑا رہا تھا ابھی
بنا اٹھے اسے دھتکار کر بھگا بھی چکا
گلی میں کھیل رہا تھا پڑوس کا بچہ
بلا کر پاس اسے مار کر رلا بھی چکا
بس ایک آخری سگریٹ بچا تھا پیکٹ میں
اسے بھی پھونک چکا
گھس چکا
بجھا بھی چکا
نہ جانے وقت ہے کیا دور تک ہے سناٹا
فقط منڈیر کے پنجرے میں اونگھتا پنچھی
کبھی کبھی یونہی پنجے چلانے لگتا ہے
پھر اپنے آپ ہی
دانے اٹھانے لگتا ہے
تمہارے خط کو۔۔۔۔۔
- کتاب : Shaher Men Gaon (Pg. 113)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.