سوگندھی
دلچسپ معلومات
ہتک منٹو کا مشہور افسانہ ہے۔۔ اس افسانے کا مرکزی کردار سوگندھی نام کی طوائف ہے۔۔
اک موسم مرے دل کے اندر
اک موسم مرے باہر
اک رستہ مرے پیچھے بھاگے
اک رستہ مرے آگے
بیچ میں چپ چپ کھڑی ہوں جیسے
بوجھی ہوئی بجھارت
کس کو دوش دوں، جانے مجھ کو
کس نے کیا اکارت
آئینہ دیکھوں، بال سنواروں
لب پہ ہنسی سجاؤں
گلا سڑا وہی گوشت کہ جس پر
بیٹھی رنگ چڑھاؤں
جانے کتنی برف پگھل گئی
بہہ گیا کتنا پانی
کس ندیا میں ڈھونڈوں بچپن
کس دریا میں جوانی
رات آئے مری ہڈیاں جاگیں
دن جاگے میں سوؤں
اپنے اجاڑ بدن سے لگ کر
کبھی ہنسوں، کبھی روؤں
ایک بھیانک سپنا: آگ میں لپٹی جلتی جاؤں
چولی میں اڑسے سکوں کے سنگ پگھلتی جاؤں
اک موسم مرے دل کے اندر
اک موسم مرے باہر
اک رستہ مرے پیچھے بھاگے
اک رستہ مرے آگے
رستے بیچ میں کھڑی اکیلی
پیا نہ سنگ سہیلی
کیا جانے مجھ جنم جلی نے
کیا اپرادھ کیا ہے
آخر کیوں دنیا کا میں نے سارا زہر پیا ہے
ساری عمر نہ جانے اپنے بدن میں کسے جیا ہے
میرے ساتھ زمانے!
تو نے اچھا نہیں کیا ہے
دور کھڑے مرے آنگن دوارے
پل پل پاس بلائیں
کہو ہواؤں سے اب، ان کو
دور بہت ہی دور کہیں لے جائیں
جھوٹ کی یہ کالی دیواریں
جھوٹ کا فرش اور چھت ہے
جھوٹ کا بستر جھوٹ کے ساتھی
جھوٹ کی ہر سنگت ہے
جھوٹ بچھاؤں، جھوٹ لپیٹوں
جھوٹ اتاروں، پہنوں
جھوٹ پہن کر جسم کے ویرانے میں دوڑتی جاؤں
سچ کے جگنو بول کہاں ہے
کب سے تجھے بلاؤں
اس لمبی تاریک سڑک پر کب تک چلتی جاؤں
کیوں نہیں ذہن کی دیواروں سے
ٹکراؤں، مر جاؤں
شمع سریکھی پگھل رہی ہوں
اوجھل کبھی اجاگر
اک موسم مرے دل کے اندر
اک موسم مرے باہر
مجھ سے ملنے کون آئے اب ان تنہا راہوں پر
بوٹی بوٹی بٹ گئی میری روشن چوراہوں پر
اس گہرے سناٹے میں کس کو آواز لگاؤں
کون آئے گا مدد کو میری
کیا چیخوں چلاؤں
اپنے مردہ گوشت کی چادر
اوڑھ کے چپ ہو جاؤں
اور اچانک نیندوں کی دلدل میں گم ہو جاؤں
کسی کے ہاتھ نہ آؤں
خود کو میں خود ڈھونڈنے نکلوں
لیکن کہیں نہ پاؤں
- کتاب : aazaadii ke baad delhi men urdu nazm (Pg. 260)
- Author : ateequllah
- مطبع : urdu academy (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.