Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سواری اونٹ کی ہے

رفیق سندیلوی

سواری اونٹ کی ہے

رفیق سندیلوی

MORE BYرفیق سندیلوی

    سواری اونٹ کی ہے

    اور میں شہر شکستہ کی

    کسی سنساں گلی میں سر جھکائے

    ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

    اس گھر کی جانب جا رہا ہوں

    جس کی چوکھٹ پر

    ہزاروں سال سے

    اک غم زدہ عورت

    مرے وعدے کی رسی

    ریشۂ دل سے بنی

    مضبوط رسی سے بندھی ہے

    آنسوؤں سے تر نگاہوں میں

    کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر

    مرے خاکستری ملبوس کی

    مخصوص خوشبو سونگھنے کو

    اور بھورے نٹ کی

    دکھ سے لبالب بلبلاہٹ

    سننے کو تیار بیٹھی ہے!

    وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ

    جہاں میں ایک شب اس کو

    لرزتے سنسناتے زہر والے

    چوبی تیروں کی گھنی بارش میں

    بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا

    مجھے سب یاد ہے قصہ

    برس کر ابر بالکل تھم چکا تھا

    اور خلا میں چاند

    یوں لگتا تھا جیسے

    تخت پر نوعمر شہزادہ ہو کوئی

    یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی

    کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی

    اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اندر

    گلی سوئی ہوئی تھی

    دم بخود سارے مکاں

    ایسے نظر آتے تھے

    جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں

    موم کے ترشے ہوئے ہوں

    اک بڑی تصویر میں

    جیسے ازل سے ایستادہ ہوں!

    وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ

    جہاں مہتاب کی براق کرنیں

    اس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اڑسے

    تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں

    اس کی گہری گندمیں کہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو

    نہیں بھولا ابھی تک

    سارا قصہ یاد ہے مجھ کو

    اسی شب

    میں نے جب اک لمحۂ پرسوز میں

    تلوار اس کے پاؤں میں رکھ دی تھی

    اور پھر یہ کہا تھا:

    ''میرا وعدہ ہے

    یہ میرا جسم اور اس جسم کی حاکم

    یہ میری باطنی طاقت

    قیامت اور

    قیامت سے بھی آگے

    سرحد امکاں سے لا امکاں تلک

    تیری وفا کا ساتھ دے گی

    وقت سنتا ہے

    گواہی کے لیے

    آکاش پر یہ چاند

    قدموں میں پڑی یہ تیغ

    اور بالوں میں یہ انجیر کا پتا ہی کافی ہے!''

    خداوندا وہ کیسا مرحلہ تھا!

    اب یہ کیسا مرحلہ ہے!

    ایک سنسانی کا عالم ہے

    گلی چپ ہے

    کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی

    یہ کیسی ساعت منحوس ہے

    جس میں ابھی تک

    کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا

    یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری

    کسی بھی مرد و زن کی

    میں نے صورت ہی نہیں دیکھی

    سواری اونٹ کی ہے

    اور میں شہر شکستہ کی

    کسی سنساں گلی میں سر جھکائے

    ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

    اس گھر کی جانب جا رہا ہوں

    یا کسی محشر

    خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں

    ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر

    کوئی منظر

    کوئی منظر کہ جس میں اک گلی ہے

    ایک بھورا اونٹ ہے

    اور ایک بزدل شخص کی ڈھیلی رفاقت ہے

    سفر نا مختتم

    جیسے ابد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے!

    سواری اونٹ کی

    یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے

    آزمائش اک انوکھے خواب کی ہے

    پتلیاں ساکت ہیں

    سایہ اونٹ کا ہلتا نہیں

    آئینۂ آثار میں

    ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں

    اس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں

    کب سے گلی میں ہوں

    کہاں ہے وہ مری پیاری

    مری سیلن زدہ اوطاق والی

    وہ سریلی گھنٹیوں والی

    زمینوں پانیوں اور انفس و آفاق والی

    کس قدر آنکھوں نے کوشش کی

    مگر رونا نہیں آتا

    سبب کیا ہے

    گلی کا آخری کونا نہیں آتا

    گلی کو حکم ہو اب ختم ہو جائے

    میں بھورے اور بوڑھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے

    پیری کے دن گنتا ہوں

    شاید اس گلی میں رہنے والا

    کوئی اس کے عہد کا زنبور ہی گزرے

    میں اس کی بارگہہ میں

    دست بستہ معذرت کی بھیک مانگوں

    سر ندامت سے جھکاؤں

    اور اس زنبور کے صدقے

    کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو

    اور اونٹ کو لے کر

    گلی کی آخری حد پار کر جاؤں!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے