سواری اونٹ کی ہے
سواری اونٹ کی ہے
اور میں شہر شکستہ کی
کسی سنساں گلی میں سر جھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر
اس گھر کی جانب جا رہا ہوں
جس کی چوکھٹ پر
ہزاروں سال سے
اک غم زدہ عورت
مرے وعدے کی رسی
ریشۂ دل سے بنی
مضبوط رسی سے بندھی ہے
آنسوؤں سے تر نگاہوں میں
کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر
مرے خاکستری ملبوس کی
مخصوص خوشبو سونگھنے کو
اور بھورے نٹ کی
دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
سننے کو تیار بیٹھی ہے!
وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ
جہاں میں ایک شب اس کو
لرزتے سنسناتے زہر والے
چوبی تیروں کی گھنی بارش میں
بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا
مجھے سب یاد ہے قصہ
برس کر ابر بالکل تھم چکا تھا
اور خلا میں چاند
یوں لگتا تھا جیسے
تخت پر نوعمر شہزادہ ہو کوئی
یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی
کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی
اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اندر
گلی سوئی ہوئی تھی
دم بخود سارے مکاں
ایسے نظر آتے تھے
جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں
موم کے ترشے ہوئے ہوں
اک بڑی تصویر میں
جیسے ازل سے ایستادہ ہوں!
وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ
جہاں مہتاب کی براق کرنیں
اس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اڑسے
تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں
اس کی گہری گندمیں کہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو
نہیں بھولا ابھی تک
سارا قصہ یاد ہے مجھ کو
اسی شب
میں نے جب اک لمحۂ پرسوز میں
تلوار اس کے پاؤں میں رکھ دی تھی
اور پھر یہ کہا تھا:
''میرا وعدہ ہے
یہ میرا جسم اور اس جسم کی حاکم
یہ میری باطنی طاقت
قیامت اور
قیامت سے بھی آگے
سرحد امکاں سے لا امکاں تلک
تیری وفا کا ساتھ دے گی
وقت سنتا ہے
گواہی کے لیے
آکاش پر یہ چاند
قدموں میں پڑی یہ تیغ
اور بالوں میں یہ انجیر کا پتا ہی کافی ہے!''
خداوندا وہ کیسا مرحلہ تھا!
اب یہ کیسا مرحلہ ہے!
ایک سنسانی کا عالم ہے
گلی چپ ہے
کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی
یہ کیسی ساعت منحوس ہے
جس میں ابھی تک
کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا
یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری
کسی بھی مرد و زن کی
میں نے صورت ہی نہیں دیکھی
سواری اونٹ کی ہے
اور میں شہر شکستہ کی
کسی سنساں گلی میں سر جھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر
اس گھر کی جانب جا رہا ہوں
یا کسی محشر
خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں
ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر
کوئی منظر
کوئی منظر کہ جس میں اک گلی ہے
ایک بھورا اونٹ ہے
اور ایک بزدل شخص کی ڈھیلی رفاقت ہے
سفر نا مختتم
جیسے ابد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے!
سواری اونٹ کی
یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے
آزمائش اک انوکھے خواب کی ہے
پتلیاں ساکت ہیں
سایہ اونٹ کا ہلتا نہیں
آئینۂ آثار میں
ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں
اس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں
کب سے گلی میں ہوں
کہاں ہے وہ مری پیاری
مری سیلن زدہ اوطاق والی
وہ سریلی گھنٹیوں والی
زمینوں پانیوں اور انفس و آفاق والی
کس قدر آنکھوں نے کوشش کی
مگر رونا نہیں آتا
سبب کیا ہے
گلی کا آخری کونا نہیں آتا
گلی کو حکم ہو اب ختم ہو جائے
میں بھورے اور بوڑھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے
پیری کے دن گنتا ہوں
شاید اس گلی میں رہنے والا
کوئی اس کے عہد کا زنبور ہی گزرے
میں اس کی بارگہہ میں
دست بستہ معذرت کی بھیک مانگوں
سر ندامت سے جھکاؤں
اور اس زنبور کے صدقے
کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو
اور اونٹ کو لے کر
گلی کی آخری حد پار کر جاؤں!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.