شاعری کا جنازہ
ایک شب تو طبع موزوں نے اڑا دی نیند بھی
اور دماغ و قلب کی رگ رگ پھڑکنے لگ گئی
ذہن پر چھانے لگیں پھر شاعری کی بدلیاں
عالم مشہود کا چھپنے لگا پھر آسماں
آمد موزوں تھی یا بڑھتا ہوا سیلاب تھا
شعر کاغذ پر نکھرنے کے لیے بیتاب تھا
اک تلاطم سا بپا تھا بحر احساسات میں
بے ثباتی حکمراں تھی عالم اثبات میں
طبع کہتی تھی زمانے بھر کی آنکھیں کھول دوں
ذرہ و خورشید میزان سخن میں تول دوں
ذرہ ذرہ کو سنا دوں آج پیغام حیات
اک اشارے سے بدل دوں یہ نظام کائنات
گنبد گردوں پہ اب تخئیل کی پرواز تھی
دل کی دھڑکن جیسے اسرافیل کی آواز تھی
خامہ تھا یا کہ کوئی رخش صبا رفتار تھا
جو تخیل کی ہوا سے برسر پیکار تھا
دفعتاً دو نرم و نازک ہاتھ شانوں سے لگے
برق خرمن سوز جیسے آشیانے پر گرے
مڑ کے دیکھا تو کھڑا ہے ایک طفل خورد سال
جس کی آنکھوں میں تمنا جس کی نظروں میں سوال
مدرسے کی فیس پنسل پن کتابیں کاپیاں
مشتمل تھا چند اشیاء پر نگاہوں کا بیاں
اور پھر اس طفل کی صورت پہ گہری سوچ تھی
جو مجھے اک دعوت فکر و عمل سی دے گئی
میں نے دیکھا ذہن میں اک گیند ہے لٹو بھی ہے
اور پنسل چھیلنے کا خوش نما چاقو بھی ہے
خوب صورت ہیٹ ہے اک خوش نما پوشاک ہے
ذہن کی گردش کا محور ٹرائیکل کا چاک ہے
ٹکٹکی سی باندھ کر کچھ دیر تک دیکھا کیا
میں اسی عالم میں پھر محسوس یوں کرنے لگا
اک جمودی کیفیت چھانے لگی ادراک پر
عرش سے گرتا ہو جیسے کوئی فرش خاک پر
ذہن سے جوش سخن کا رنگ کم ہونے لگا
طبع موزوں کا سر تسلیم خم ہونے لگا
ایک مایوسی دماغ و قلب پر چھانے لگی
اور جماہی پر جماہی نیند سی آنے لگی
پھر پلٹ کر کی نظر اپنی ادھوری نظم پر
ایک بجلی سی گری میرے دماغ و قلب پر
موت کی تھی حکمرانی پیکر احساس پر
شاعری کا تھا جنازہ بستر قرطاس پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.