شاہکار
اترتا جاتا ہے رگ رگ میں زہر نومیدی
نظر کو ملتی ہے ہر سمت نقش نقش میں یاس
دل و دماغ کا عالم سکوت سے پر ہے
وہ انتہا کہ خموشی کا پہرہ ہے جس پر
ابھی سے کیوں مری تقدیر ہو گئی مجھ کو
قدم قدم پہ ملی زندگی عدو بن کر
ابھی تو میرے خیالوں کو اور رونا تھا
سیاہ راہ تصور پہ چھائی تو لیکن
کچھ اس طرح کہ ستاروں کی نیند ہی نہ کھلی
تمام رات میں دکھ کی تلاش کرتا رہا
سحر ہوئی تو تخیل کی وادیوں میں مجھے
شجر شجر پہ نئی کوفت کے دھندلکے ملے
مرا نصیب کہ پھر بھی فغاں نہ کر پایا
مرے خیال یہ کیا حادثہ ہوا آخر
زمانہ تکتا ہے حیرت سے یوں مجھے جیسے
اک اجنبی سے مصور کا شاہکار ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.