شاعر
آج پھر سنولا رہا ہے عارض روئے حیات
موت کے قانون پر ہے زندگی کا گرم ہاتھ
جھلملاتا جا رہا ہے تند آندھی میں چراغ
مل رہا ہے خون کے قطروں سے منزل کا سراغ
آ رہا ہے فاقہ کش مزدور کے چہرے پہ رنگ
کھردرے ہاتھوں سے اب ٹکرا رہے ہیں جام و سنگ
چھٹ رہی ہے نبض ہستی آ رہا ہے انقلاب
اٹھ رہا ہے آج فرسودہ عقائد کا سہاگ
زیست کی گردن میں ہے پژمردہ افسانوں کا ہار
موت کے شانوں پہ ہے سلمائے گیتی کا نکھار
بن رہی ہیں اب زمانہ میں نئی پگڈنڈیاں
جن سے گزرے گا جواں فکروں کا پہلا کارواں
داستان عہد پارینہ ہے ذوق رنگ و بو
اب چھلکتا ہے خم و ساغر سے انساں کا لہو
بزم حسن و ناز کی دلداریاں بھی سو گئیں
ہجر کی راتوں کی وہ بے خوبیاں بھی ہو گئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.