کل میں جب عالم تنہائی میں تھا
دل نے چپکے سے کہا
کوئی رنگین سا افسانہ سناؤ
کوئی ماضی کا جنوں خیز ترانہ چھیڑو
کوئی سرشاریٔ الفت کی کہانی دہراؤ
میں ذرا دیر تو خاموش رہا
دیکھ کر دل کو مگر میں نے مسلسل بیتاب
اس کی تسکین کی خاطر یہ کہا
میرا ماضی کہ ہے یادوں کا مزار
اپنے ہاتھوں جسے تعمیر کیا ہے میں نے
اب بھلا کیوں اسے مسمار کروں
اب بجز خاک کے اس قبر میں کیا رکھا ہے
زندگی جس سے عبارت تھی وہ آشفتہ سری
تجربہ بن کے مری روح میں پیوستہ ہے
بیتے لمحے کبھی واپس نہیں آتے اے دل
یہ جہاں راہ عمل ہے جس پر
کارواں لمحوں کے دن رات بڑھے جاتے ہیں
اف وہ کم فہم جو رستے میں ٹھہر جاتے ہیں
اپنے ہی ماضی کے مرقد کے مجاور بن کر
اور مرقد پہ جلاتے ہیں جو اشکوں کے چراغ
زندگی گریہ نہیں نغمہ ہے
زندگی خار نہیں غنچہ ہے
زندگی راکھ نہیں شعلہ ہے
زندگی موج صبا ہے اے دل
زندگی گل کے مہکنے کی ادا ہے اے دل
مجھ کو احساس ہے اب خاک وطن کو ہے ضرورت میری
گلشن امن و محبت کو ہے حاجت میری
تجھ کو اے دل مرا نغمہ بن کر
چھپ کے اس خاک کے ذروں میں دھڑکنا ہوگا
رہ کے ہر غنچہ کے پہلو میں چٹکنا ہوگا
اے مرے دل تجھے اس طرح دھڑکنا ہوگا
یہ سپاہی یہ مرے دیش کے خوددار جواں
جن کے ہاتھوں میں ہیں آزادئ انساں کے نشاں
مجھ کو محسوس ہو میں بھی ہوں انہیں میں شامل
اے مرے دل تجھے اس طرح دھڑکنا ہوگا
علم و سائنس کے افلاک کے روشن مہتاب
جن کی آنکھوں میں پلا کرتے ہیں تخلیق کے خواب
مجھ کو محسوس ہو میں بھی ہوں انہیں میں شامل
اے مرے دل تجھے اس طرح دھڑکنا ہوگا
یہ مرے دیش کے مزدور یہ دہقاں یہ عوام
جن کے ہاتھوں میں ہے تعمیر و ترقی کی لگام
مجھ کو محسوس ہو میں بھی ہوں انہیں میں شامل
میں تہی دست ہوں کیا پیش وطن نذر کروں
جان و دل فکر و نظر عظمت فن نذر کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.