اے ملکۂ افکار درخشان تخیل
اے چاندنیٔ ظلمت شب جان تغزل
کس نام کس الفاظ سے میں تجھ کو نوازوں
کس طرح تجھے نظم کے سانچے میں ڈھالوں
مخمل سا بدن نقطہ و خط پھول ہے جس کا
یہ طرز نگارش کہ نظر جھوم رہی ہے
یہ چاند ستارے ہیں تری راہ میں بکھرے
یہ کاہکشاں تیرے قدم چوم رہی ہے
ہر شعر کی تو شان ہے شوکت ہے حشم ہے
موضوع پہ تیرے ہی رواں میرا قلم ہے
تابانیٔ پیشانی سے روشن ہیں ستارے
صہبا سے ہیں لبریز تری آنکھوں کے پیالے
پلکوں کی بناوٹ میں نہاں کاسۂ لب ہے
مینا سے مشابہ ہے صراحی نما گردن
چہرے کی تجلی سے نمود سحری ہے
یہ شام ہے تو تیرے ہی گیسو کے سبب سے
دریا میں تلاطم ہے تو بس تیرے ہی لب سے
قدرت نے سجا رکھے ہیں موتی جو دہن میں
ہے ہیرے زمرد کی مثال ان سے ہی روشن
ہونٹوں سے تبسم کی لہر چھوٹ رہی ہے
عارض کے گلابوں سے شفق پھوٹ رہی ہے
دریائے محبت کے کنارے کی قسم سن
انگشت حنائی کے اشارے کی قسم سن
تو ہے تو مری زندگی آباد بہت ہے
جو تو نہیں تو زندگی برباد بہت ہے
ہے تمکنت فصل بہار ایک تجھی سے
ہر چہرۂ گل پر ہے نکھار ایک تجھی سے
اب ہار ہو یا جیت مجھے اس سے غرض کیا
اک تیرے لیے میں یہ جوا کھیل رہا ہوں
آ دیکھ سلاخوں سے مرے کرب کا عالم
اک عمر سے فرقت کی سزا جھیل رہا ہوں
اے جان بہار آن کے گلشن کو سجا دے
اس اجڑے بیاباں کو چمن زار بنا دے
اے فخر وفا ناز اسد شان تحمل
یہ نظم نہیں جھیل میں کاغذ کی کنول ہے
خرم تو نہیں میں کہ تجھے تاج محل دوں
اے جان غزل تیرے لیے شام غزل ہے
اے ملکۂ افکار درخشان تخیل
اے چاندنیٔ ظلمت شب جان تغزل
کس نام کن الفاظ سے میں تجھ کو نوازوں
کس طرح تجھے نظم کے سانچے میں میں ڈھالوں
قدرت کی بڑی دین ہے تو شے ہی عجب ہے
شاعر کی تمنا ہے تقاضا ہے طلب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.