شاعر
ساری دنیا سو رہی ہے اور تو بیدار ہے
دور ہے راحت سے اور لذت کش آزار ہے
لے رہا ہے ذرے ذرے سے تو عبرت کا سبق
یعنی ہر ہر گام پر ہوتا ہے سینہ تیرا شق
تیری نظریں دیکھتی ہیں انتہا آغاز میں
محو ہو جاتا ہے جب تو انکشاف راز میں
ظاہری رنج و الم سے دل ترا بیگانہ ہے
انکشاف راز یزدانی کا تو دیوانہ ہے
مضطرب ہوتی ہے تیری روح لہریں دیکھ کر
تو سمجھتا ہے انہیں سے کیا ہے انجام بشر
دیکھ کر پھولوں کو روتا ہے کبھی تو زار زار
وجد میں کرتا ہے اپنا ہی گریباں تار تار
قطرۂ شبنم ہیں گویا اک کتاب زندگی
دیکھتا ہے جس کو تو پڑھ پڑھ کے خواب زندگی
تو ہے عکاس ازل فطرت میں تیری درد ہے
گو بہ ظاہر خوش ہے لیکن لب پہ آہ سرد ہے
تو نے فطرت کے سبق کو پھر سے دہرایا یہاں
آشکارا کر دئے جو راز تھے اب تک نہاں
فطرت خوابیدہ کو بیدار کر دیتا ہے تو
زندگی سے عیش کی بیزار کر دیتا ہے تو
مست ہو جاتا ہے تو ابر سیہ کو دیکھ کر
چشمکوں سے برق کی لیتا ہے تو کیا کیا اثر
اے کہ تیری ذات سے ہے رونق بزم جہاں
اے کہ ہستی ہے تری سرمایہ دار کن فکاں
اے کہ تری ذات سے ہے رونق بزم شہود
اے کہ تیرے رنگ سے ہر شے میں ہے رنگ نمود
تو نہ ہوتا تو نہ ہوتا یہ جہان رنگ و بو
تو نہ ہوتا تو نہ ہوتی حسن کی کچھ آبرو
تو نہ ہوتا تو نہ ہوتے منکشف راز حیات
تو نہ ہوتا تو نہ ہوتا نقش فانی کو ثبات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.