شام ہوئی تو بوڑھا طوطا
برگد کی ٹہنی پر بیٹھا
سوچ رہا تھا اب کیا ہوگا
کھانے کو کیا رکھا ہوگا
روٹی حلوہ یاد آتا تھا
چھت کا سایہ یاد آتا تھا
تب وہ جنگل میں چلایا
ہائے اندھیرا ہونے آیا
آؤ بچو کھاؤ چوری
سب کی آدھی میری پوری
چڑیاں اس کی باتیں سن کر
ہنستی تھیں شاخوں میں چھپ کر
آپس میں کہتی تھیں اے بی
کیسا حلوہ دودھ جلیبی
آزادی کے الگ مزے ہیں
جنگل کے اپنے میوے ہیں
شاخوں سے تازہ پھل کھاؤ
چشمے کے پانی میں نہاؤ
ناچو گاؤ اڑتے جاؤ
رات میں ٹہنی پر سو جاؤ
کھلی ہوائیں کھلی فضائیں
میلوں پر پھیلاتے جائیں
یہ سردی گرمی برساتیں
اپنے دن ہیں اپنی راتیں
جلتی دھوپ اور ٹھنڈا سایہ
چاند ستاروں کا سرمایہ
جب تک جنگل میں رہنا ہے
ہم اس کے ہیں یہ اپنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.