Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شام کو راستے پر

میراجی

شام کو راستے پر

میراجی

MORE BYمیراجی

    رات کے عکس تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود

    کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے

    اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے

    اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں

    وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا ہر انساں کا

    کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبۂ نادان کا بہروپ کبھی

    ایک چالاک جہاں دیدہ و بے باک ستمگر بن کر

    دھوکا دینے کے لیے آتا ہے بہکاتا ہے

    اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے

    مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر

    ایک دیوار کا روزن اسی روزن سے نکل کر کرنیں

    مری آنکھوں سے لپٹتی ہیں مچل اٹھتی ہیں

    آرزوئیں دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے

    اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں

    کون بے باک ہے اور بھولی سی محبوبہ کون

    سوچ کو روک ہے دیوار کی وہ کیسے چلے

    کیسے جا پہنچے کسی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے میں

    وہ صنم خانہ جہاں بیٹھے ہیں دو بت خاموش

    اور نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتے ہیں

    ذہن کو ان کے دھندلکے نے بنایا ہے اک ایسا عکاس

    جو فقط اپنے ہی من مانے مناظر کو گرفتار کرے

    میں کھڑا دیکھتا ہوں سوچتا ہوں جب دونوں

    چھوڑ کر دل کے صنم خانے کو گھر جائیں گے

    صحن میں تلخ حقیقت کو کھڑا پائیں گے

    ایک سوچے گا مری جیب یہ دنیا یہ سماج

    ایک دیکھے گا وہاں اور ہی تیاری ہے

    مجھ کو الجھن ہے یہ کیوں میں تو نہیں ہوں موجود

    رات کی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے میں

    مری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں

    اور دل کہتا ہے یہ دود دل سوختہ ہے

    ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی

    میرا اندوختہ ہے

    مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے

    مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ بیکار سماج

    اپنی پابندی سے دم گھٹ کے فسانہ بن جائے

    مری آنکھوں میں تو مرکوز ہے روزن کا سماں

    اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کے لیے

    میں اسی روزن بے رنگ میں گھس جاؤں گا

    لیکن ایسے تو وہی بت نہ کہیں بن جاؤں

    جو نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتا ہے

    چھوڑ کر جس کو صنم خانے کی محجوب فضا

    گھر کے بیباک المناک سیہ خانے میں

    آرزوؤں پہ ستم دیکھنا ہے گھلنا ہے

    میں تو روزن میں نہیں جاؤں گا دنیا مٹ جائے

    اور دم گھٹ کے فسانہ بن جائے

    سنگ دل خون سکھاتی ہوئی بیکار سماج

    میں تو اک دھیان کی کروٹ لے کر

    عشق کے طائر آوارہ کا بہروپ بھروں گا پل میں

    اور چلا جاؤں گا اس جنگل میں

    جس میں تو چھوڑ کے اک قلب فسردہ کو اکیلے چل دی

    راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے پھر کیا

    ان گنت پیڑوں کے میناروں کو

    میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا

    اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش

    جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی

    میں ہوں آزاد مجھے فکر نہیں ہے کوئی

    ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی

    مرا اندوختہ ہے

    related content

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے