شانہ بہ شانہ
مجھے کچھ نہیں معلوم کیا چاہتی ہو تم مجھ سے
میرے پاس ہے کیا جو میں دے سکتا ہوں کسی کو
طبل و علم ہے پاس اپنے نہ ملک و مال
اور پھر کوئی بہت خاص چیز ہی ہونی چاہیے تمہیں نظر کرنے کو تو
کیا نہیں ہے تمہارے پاس پہلے سے
حسن ایسا کہ خدا بھی خوش ہو گیا ہوگا تمہیں بنا کر
رونق سی لگ جاتی ہے بیٹھ جاتی ہو جہاں
چلتی ہو تو ساتھ چلیں سرو و صنوبر
اوپر سے پایا ہے ذہن رسا
میں تو ازل سے مرتا آیا ہوں حسن اور دانش کے امتزاج پر
محض خوبصورت عورت کبھی نہ لبھا سکی مجھے
نہ ہی متأثر کر سکی مجھے کم شکل دانش وری
میں اکثر کہتا ہوں تم میں خدا نے جمع کر دیے ہیں چاند اور سورج
داستانوں سے ماورا چندے آفتاب چندے مہتاب کوئی ہے تو تم
اور پھر تمہاری آواز
پتھروں کو پگھلا دینے والا گداز ہے اس میں
بولتی ہو تو چراغ سے جل اٹھتے ہیں محفل میں
کیوں شرمندہ کرتی ہو یہ کہہ کر مجھے کہ تمہیں ضرورت ہے میری
یاد آیا ایک روز کہا تھا تم نے
ہر کسی کو ایک شانہ چاہیے جس پر سر رکھ کے رو سکے وہ
اور فکر نہ ہو کہ مذاق اڑایا جائے گا اس کا یا بنایا جائے گا اس بات کا بتنگڑ
لیکن میری جان ایسا کون سا دکھ ہے جو نوبت آ گئی رونے کی
کیا کہتے ہیں روئیں تمہارے دشمن
گو میں تمہارا دشمن نہیں لیکن میں جو ہوں رونے کے لیے
میرے شانے پر سر رکھ کر روئیں اگر تم
تو تمہارے آنسو نہ پونچھ سکوں گا میں
میں تو خود بہہ جاؤں گا آنسوؤں میں
مجھے تو اس خیال ہی سے رونا آ رہا ہے کہ تمہاری آنکھوں میں بھرے ہوں آنسو
تمہیں سچ مچ روتا دیکھ کر کیا حال ہوگا میرا
ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے البتہ
تم رو لو میرے شانے پر سر رکھ کر
اور میں رو لوں تمہارے شانے پر سر رکھ کر
کیا یہ ممکن ہے
شانہ بہ شانہ
- کتاب : din kaa phool (Pg. 138)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.