زحمت کش ہجراں کا دل اور دکھاتے ہیں
یہ کہہ کے مجھے لوگ اب دیوانہ بناتے ہیں
وہ آتے ہیں آتے ہیں وہ آتے ہیں آتے ہیں
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
وہ رات بھیانک اور زلفوں کی طرح کالی
ہوتی ہی رہی جس میں جذبات کی پامالی
تا آنکہ ہوئی ظاہر مشرق کی طرف لالی
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
جلتے ہوئے دیپک بھی خاموش ہوئے آخر
اڑتے ہوئے جگنو بھی روپوش ہوئے آخر
پروانے اجل سے ہم آغوش ہوئے آخر
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
چہکے وہ پرندے وہ مرغان سحر بولے
اڑنے کے لئے اب وہ تیار ہیں پر تولے
ہم بیٹھے کے بیٹھے ہیں غم خانے کا در کھولے
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
مسجد کے مناروں سے وہ بانگ اذاں آئی
دربار الٰہی میں اب ہوگی جبیں سائی
جو رات تھی پربت سی وہ گھٹ کے بنی رائی
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
بیتابیٔ دل میری اور وہ شب تنہائی
پتا جو کبھی کھڑکا آہٹ جو کبھی آئی
نجمیؔ یہی سمجھا میں تقدیر انہیں لائی
لیکن وہ کہاں آئے آتے ہیں نہ آئیں گے
چھٹکے ہوئے تارے بھی اب ڈوبتے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.