شب کیسی بھی ہو شب سے ہمیں پیار نہیں ہے
دل شب کی کسی شے کا پرستار نہیں ہے
مہتاب سے روشن ہو کہ تاروں سے بھری ہو
شب کیسی بھی ہو شب سے ہمیں پیار نہیں ہے
تسلیم کہ ٹوٹا ہے ستون در ظلمت
تسلیم کہ صدیوں کا اندھیرا ہوا زخمی
دھرتی کی رگوں سے جو لہو چوس رہا تھا
وہ سانپ وہ اژدر وہ سپیرا ہوا زخمی
تسلیم کہ بے زور ہوئی ظلم کی آندھی
تسلیم کی شمعوں کی لویں تیز ہوئی ہیں
راہیں کہ دھواں دھار تھیں تاریکیٔ غم سے
امید کی کرنوں سے دل آویز ہوئی ہیں
تسلیم کہ اس موج تجلی کے جلو میں
جو کچھ بھی نگاہوں کا تقاضا تھا وہ سب
اے دیدہ ورو پھر بھی یہ احساس ہے باقی
شب کتنی ہی زرتاب ہو پر نور ہو شب ہے
دل شب کی کسی شے کا پرستار نہیں ہے
مہتاب سے روشن ہو کہ تاروں سے بھری ہو
شب کیسی بھی ہو شب سے ہمیں پیار نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.