ابھی لنگر نہیں ڈالا
تکونی بادباں کی رسیاں ڈھیلی نہیں کیں
ابھی مستول اپنے پاؤں کے اوپر کھڑا ہے
سفینے کے بھرے سینے میں
سانسوں کا ذخیرہ سرسراتا ہے
ابھی ہم ناقدانہ فاصلے سے
اجنبی ساحل کے تیور دیکھتے ہیں
کھجوروں کے درختوں میں چھپی سرگوشیاں سننے کی خاطر
ہم نے اپنے کان زندہ کر دئیے ہیں
پہاڑی میں سرکتے
تیر اندازوں کے کاروبار پہ آنکھیں لگا دی ہیں
ہمیں
تم اپنے ساحل پر
پذیرائی کے کس انداز کے قابل سمجھتے ہو
یہ تم پر ہے
اگر تم تیر چھوڑو گے
تو ہم نے اپنی آنکھوں کے سوا
سارا بدن پگھلے ہوئے لوہے کے پانی میں ڈبویا ہے
ہمارا ہاتھ
ترکش کے کھلے منہ پر دھرا ہے
کماں کی خشک اور اکڑی زباں تو
مدتوں سے تیر چکھنے کے لیے بے چین ہے
تمہیں یہ علم ہونا چاہیئے
کہ ہم جب اپنے تیر پہ
دشمن کی بائیں آنکھ لکھتے ہیں
تو بائیں آنکھ ہوتی ہے
کبھی ابرو نہیں ہوتا
یہ تم پر ہے
اگر تم ہم کو سینے سے لگانے کے لیے
ساحل پہ آ کر اپنے بازو کھول دو گے
تو ہم بھی
پھڑپھڑاتے بادباں کی رسیوں کو کھول دیں گے
اگر تم تیر اندازوں کی ٹولی کو پہاڑی سے اتاروگے
تو ہم بھی
جسم سے لپٹا ہوا لوہا گرا دیں گے
تمہارے ہر عمل کو ہم
بڑی ایمانداری سے، بڑے انصاف سے رد عمل دیں گے
تمہیں یہ علم ہونا چاہیئے
کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ
اور دل کے بدلے دل ہمارا ضابطہ ہے
تمہارا حسن ظن ہے
سوچ کے ہر زاویے سے سوچنا
کہ ہم جو پانی پر کھڑے ہیں
کس پذیرائی کے قابل ہیں
مگر کچھ بھی کرو
مد نظر رکھنا کہ ہم مد مقابل ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.