شہر گم صم
بلڈنگیں ذیشان اونچی
شاہراہوں کے کناروں پر کھڑی تھیں
شاہراہیں آتی جاتی گاڑیوں کاروں سے پر تھیں
قہوہ خانوں پارکوں گلیوں محلوں اور گھروں میں
زندگی معمول کی رفتار سے چلتی تھی لیکن
بحر کے ساحل کی گولائی سے ہم آغوش
میلوں تک یہ آبادی کا مسکن
اک خموشی کی ردا اوڑھے ہوئے تھا
گنگ بے آواز گم صم
جیسے لوگوں کی زبانیں کٹ گئی ہوں
گاڑیوں کا شور سڑکوں میں ہی دفنایا گیا ہو
بلڈنگوں کی گہما گہمی
اپنا دم سادھے ہوئے پنبہ دہن ہو
صرف حرکت ہو مگر لا صوت گونگی
دوسری جانب سمندر
شور سے آباد بڑھتا پھیلتا واپس سمٹتا
حرکت و آواز کا ازلی نمونہ
ششدر و حیران سا
شوریدہ سر پاگل ہوا سے پوچھتا تھا
شہر کو کیا ہو گیا ہے
اور پھر جیسے جواباً
بحر کی لہروں سے ٹکراتی ہوئی پاگل ہوا نے
کوئی جادو کر دیا ہو
اور ساحل پر پڑے خاموش ناقوسوں کے اندر
بحر کے سارے بلالوں کی اذانیں پھونک دی ہوں
اور ان اونچی اذانوں نے لب ساحل سے اٹھ کر
شاہراہوں قہوہ خانوں پارکوں گلیوں گھروں کی خامشی کو
اک الوہی صوت کا ملبوس سا پہنا دیا ہو
اور یکایک
شہر اپنی قوت گویائی کی بخشش کو پھر سے پا گیا ہو
بلڈنگیں ذیشان ہیں عالی نشاں ہیں
گاڑیاں کاریں ٹرامیں چل رہی ہیں
قہوہ خانوں پارکوں گلیوں گھروں میں
شور و غل ہے زندگی ہے
شہر اب جاگا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.