شہر بدر
شام کا پنجرہ میرے جسم پہ گر جاتا ہے
اور میں درجہ دوم کا قیدی
دشمن کے اخبار سے پوری دنیا کے لوگوں کی بگڑتی شکلیں دیکھنے لگتا ہوں
اور سورج کی آزادی
میرے جینے کی خواہش کو اپنا دوست بنانے آ جاتی ہے
میرے ناشتے کے برتن میں میری محبت کے برسوں کا سارا ذائقہ بھر جاتا ہے
سگریٹ کے ہر کش سے دریا کھینچ آتے ہیں
اور پرندے اپنی اولادوں کو میرے گیت کا چوگا دیتے ہیں
جب میرے پاؤں ان کے بنائے ضابطوں کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں
میری آنکھیں لاکھوں میل سفر کر جاتی ہیں
اور میرے بازو ریل کی دونوں پٹریاں بن کر پھیلتے ہیں
جب میری رگوں میں شاعری خون بناتی ہے
میں شام کا پنجرہ توڑ کے باہر آ جاتا ہوں
میرے پاؤں کے سب رشتے اک دوجے سے جڑ جاتے ہیں
میرے لفظ درختوں کے گنبد میں کبوتر بن کے گٹلنے لگتے ہیں
میں اپنے سرہانے بیٹھے نیرودا سے کچھ باتیں پوچھتا ہوں
- کتاب : meyaar (Pg. 106)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.