شہر آشوب
وہی صدا جو مرے خوں میں سرسراتی تھی
وہ سایہ سایہ ہے اب ہر کسی کی آنکھوں میں
یہ سرسراہٹیں سانپوں کی سیٹیوں کی طرح
سیاہیوں کے سمندر کی تہ سے موج بہ موج
ہماری بکھری صفوں کی طرف لپکتی ہیں
بدن ہیں برف، رگیں رہ گزار ریگ رواں
کئی تو سہم کے چپ ہو گئے ہیں صورت سنگ
جو بچ گئے ہیں وہ اک دوسرے کی گردن پر
جھپٹ پڑے ہیں مثال سگان آوارہ
ہوا گزرتی ہے سنسان سسکیوں کی طرح
صدائے درد جو میرے لہو میں لرزاں تھی
جھلک رہی ہے وہ اب بے شمار آنکھوں میں
لبوں پہ سوکھ گئی حرف شوق کی شبنم
کسی میں طاقت گفتار اگر کہیں ہے بھی
تو لفظ آتے ہیں ہونٹوں پہ ہچکیوں کی طرح
تراشیے تو کئی پتھروں کے سینوں میں
شجر کی شاخوں کے مانند نقش پھیلے ہیں
پر ان کے ریشوں میں ذوق نمو نہیں ملتا
کوئی نفیر کہ جس کی نوائے ہوش نواز
دلوں سے دور کرے سرسراہٹوں کا طلسم
کوئی امید کا پیغام کوئی پیار کا اسم
وہ خواب پرورش جاں کہ جس پہ صدقے ہوں جسم
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 263)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.