شہر کی گلیاں چراغوں سے بھر گئیں
رات کے آخری پہر
میں نے مقدس فلائی کی سرحد پہ
پاؤں رکھا
اس کے سبز پیرہن کی خوشبو
میرے استقبال کے لیے موجود تھی
میرے خاک آلود گھٹنوں نے
زمین کی خوشبو دار ناف کو چھوا
تو میں نے
اپنا ملبوس چاک کر ڈالا
وہ پیپرس کے جنگلوں کے شمالی کنارے پہ بیٹھی
نیل کے پانیوں کو کات رہی تھی
اس نے میرے خاک آلود چہرے کو
نیل کا آئینہ دکھایا
ہم متبرک تیل کے نمکین چراغ ہتھیلیوں پہ رکھے
شہر پناہ کی طرف چل دیے
جہاں دیوتا
باریابی کے منتظر تھے
ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر
مقدس پھاٹک کے سنہرے کواڑ
زمین کے آخری کناروں تک کھل گئے
اور شہر کی عطر بیز گلیاں
ہمارے تلوے چومنے لگیں
ہمارے سروں پہ پھیلے
آسمان کے سفید ورق پر
پرندوں کے لیے حرف امتناع لکھا تھا
ہم خداوند اثر کی زیارت گاہ کے نواح میں پہنچے
تو دیوتا اپنا مرقد چھوڑ کر
دہلیز سے آ لگا
اس نے اپنے دل کے چھید
نرسلے کی شاخ پہ کندہ کیے
اور اپنے خوب صورت لحن کی سیڑھی لگا کر
دلوں میں اتر گیا
سیاہ معبد کے سنہرے کلس کے سائے میں
زائرین کا ماتمی جلوس
در و دیوار پہ
نوحے تسطیر کر رہا تھا
میرے پہلو میں کھڑی
سبز فام عورت نے
مجھے دیوتائی ملبوس ہدیہ کیا
تو میں ہاتف کی بارگاہ کی دہلیز سے لگ کر
اپنا قصیدہ
بھینٹ کرنے لگا
مقدس فلائی کی تاریک گلیاں
نمکین چراغوں سے بھر گئیں
میں نے آخری مصرعہ
ہاتف کو دان کیا
اور سبز عورت کی نیلی آنکھوں میں
تحسین کی نقدی تلاش کرنے لگا
اس نے فصلوں پہ کرم کرتے ہاتھ سے
ہوا میں ترازو بنایا
ایک پلڑے میں
میرا حرف ہنر رکھا
اور دوسرے میں
اپنے جمال کی نقدی
اس کے جمال کا سبز دریا
میرے دامن میں بہنے لگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.