شیخ صلاح الدین
یہ سوجھی ہے کیا آپ کو شیخ صاحب
جو چپ سادھ لی آپ نے شیخ صاحب
لپیٹا تھا ناصر جب جب منہ سوچا میں نے
محبت ہی کمزور تھی آپ کی جو نہیں روک پائی اسے شیخ صاحب
سجیلا تھا گل آپ کے باغ کا سب سے وہ شیخ صاحب
گیا وہ گئی بزم یاراں کی رونق گئی اس کی خوشبو
ترنم سے خالی ہوئی شاعری گفتگو میں مزہ نہ رہا شیخ صاحب
مجھے علم تھا کہ چھپاتے ہیں غم آپ اپنا
مگر آپ کو میں بہت سخت جان جانتا تھا
بھئی عقل کل مانتا تھا
کہا آپ کا گو نہیں مانتا تھا
کہاں تو یہ دعویٰ کہ سو سال کی عمر ہوگی ہماری
کہاں اب یکایک بتائے بنا چل دیے آپ ناصر سے ملنے
اکیلے میں دل آپ کا بھی کہاں لگتا ہوگا
کتابیں خواہ قرآن ہی کیوں نہ ہو دوستی کا بدل تو نہیں شیخ صاحب
وفا کے تقاضے کیے آپ نے سارے پورے
مری واپسی کے رہے منتظر آخری سانس تک آپ تو شیخ صاحب
نہ توڑا کبھی یاد کا مجھ سے رشتہ
دھر میں جسے مل نہ پایا کبھی راستہ واپسی کا
بہت زور مارا کہ میں لوٹ آؤں
کروں آ کے آباد وہ باغ حکمت
چمکتے تھے جس میں مثال مہر آپ ہی شیخ صاحب
مسائل کے جنگل میں گم ہو گیا میں
سیاست کے کمبل کو جتنا بھی میں چھوڑتا وہ نہیں چھوڑتا تھا مجھے شیخ صاحب
مجھے اب چلا ہے پتا کہ محبت نہ کمزور تھی آپ کی شیخ صاحب
بلاوے پہ ناصر کے یوں چل دیے آپ اٹھ کر
محبت تھی کمزور میری
بلاتے رہے آپ برسوں مجھے میں نہ آیا
بہت دیر کر دی ہے آنے میں بے شک
مگر اب میں آیا کہ آیا
ذرا دو گھڑی انتظار اور غالب سے مل لوں
بہت کچھ ہے کہنا انہیں آپ سے شیخ صاحب
میں پیغام لے لوں
سکینہ سے مریم سے انور سے رخصت میں ہو لوں
گلے سے ابراہیمؔ کو میں لگا لوں
میں آیا کہ آیا خدا کی قسم شیخ صاحب
- کتاب : din kaa phool (Pg. 91)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.