کہنے کو شہر یار بھی ہیں
اور شہر بھی
لیکن کوئی مکین
نہ کوئی مکان ہے
جھلسے ہوئے درخت ہیں
بیلیں جلی ہوئیں
پودے ہوئے ہیں خاک
سوکھی ہے پتی پتی تو
اجڑے ہیں برگ و بار
اور سارے شہر
لپٹے ہوئے ہیں غبار میں
سب ہیں دھواں دھواں
انسانیت ہے سرنگوں
جنگل کا راج ہے
اور سر اٹھائے
سینہ پھلائے ہیں شہر یار
گویا یہ کہہ رہے ہیں
کہ دو کچھ خراج باج
پائی ہیں تم نے اپنے
مرادوں کی کشتیاں
ہم نے تو
اپنا وعدہ کیا آپ سے وفا
اب ہم کو ملنا چاہیے
اس کام کا صلہ
تاکہ اے شہریار
دکھائیں ہم آپ کو
شیطاں کے کھیل اور
مذہب کی آڑ میں کریں
انسانیت کا خوں
دہشت پسند ہم کو کہیں
کس کی ہے مجال
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.