شمس تبریز
دلچسپ معلومات
علی گڑھ 2 اپریل 2000
وہ کتنا خوش خصال تھا
وہ کتنا خوش جمال تھا
جلو میں اپنے جو لیے تھا
لمحۂ وصال تھا
یہ کائنات گا رہی تھی
مست تھی
خراب تھی
مہک میں گل
لہک میں سبزہ
نشہ میں شراب تھی
رگوں میں اس کے دجلہ تھا
نگاہ میں فرات تھا
وہ چہرۂ صفات تھا
وہ وجہ ممکنات تھا
وہ ایک لمحہ صبح تھا
تو لمحۂ دگر
غروب آفتاب تھا
شفق بھرا افق
کبھی طلوع ماہتاب تھا
وہ دوپہر تھا
آدھی رات تھا
انوکھی کوئی بات تھا
ہزار دلبروں میں طاق تھا
مثال بے مثال تھا
وثوق بے وثاق تھا
وہ کاف تھا
وہ نون تھا
بنائے کوہ قاف تھا
وہ شہد تھا
نبات تھا
وہ روح کائنات تھا
بس ایک آن
ایک آن میں
نظر سے تا جگر اتر گیا
وہ برق تھا
وہ رعد تھا
وہ تیر تھا
کمان تھا
یقین تھا
گمان تھا
وہ شعلہ برق طور تھا
وجود سے گزر گیا
وہی ہیں جسم و دست و پا
وہی ازل سے تا ابد
زماں مکاں کا سلسلہ
مگر نہیں
مگر نہیں
میں زندہ ہوں
میں زندہ ہوں
مگر نہ حرف و صوت ہیں
نہ حس و کرب جاں فزا
نہ ذوق اہرمن فگن
نہ شوق شان کبریا
ہے جسم آج بھی مگر
وہ در نہیں
وہ سر نہیں
کہ سوز و ساز اب کوئی
نہیں ہے سر بہ سر نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.