ایک لڑکا تھا کہ جس کا نام تھا عبد العزیز
اس کو آتا ہی نہ تھا کچھ بھی سلیقہ اور تمیز
حرکتوں سے تنگ اس کی سب محلہ دار تھے
پیار کرتا ہی نہ تھا کوئی سبھی بیزار تھے
کام ہی اس کو نہ تھا کوئی شرارت کے سوا
گھومتا پھرتا تھا یوں ہی شام تک وہ جا بجا
بھاگ جاتا تھا کسی بچے کے منہ کو نوچ کر
پھاڑ دیتا تھا کسی کا مار کر پتھر سے سر
چھین لیتا تھا کسی کے ہاتھ سے پیسے کبھی
کرنے لگتا دوسرے بچوں سے وہ جھگڑے کبھی
مار کر لکڑی کسی کی پھاڑ دیتا تھا پتنگ
بے وجہ خود دوسروں سے کر لیا کرتا تھا جنگ
کام ہی کوئی نہ تھا اس کو شرارت کے سوا
دوسروں کو دے کے ایذا اس کو آتا تھا مزہ
لوگ سمجھاتے تھے اس کو چھوڑ دے یہ عادتیں
اچھے بچے کب کیا کرتے ہیں ایسی حرکتیں
کب ہوتا نصیحت کا کوئی اس پر اثر
کان دھرتا ہی نہیں تھا جب وہ اچھی بات پر
وہ کبھی غافل نہیں ہوتا تھا اپنے کام سے
بے خبر تھا وہ شرارت کے برے انجام سے
ایک دن کی بات اک بچے کے ڈھیلا مار کر
بھاگتا وہ جا رہا تھا جب سڑک پر تیز تر
پیر کے نیچے کوئی کیلے کا چھلکا آ گیا
پیر پھسلا تو شرارت کی سزا وہ پا گیا
چھل گئیں جب کہنیاں اور سر سے خوں بہنے لگا
ہائے اللہ ہائے اللہ چیخ کر کہنے لگا
توبہ کرتا تھا خدا سے خوب روتا تھا کبھی
اور کہتا تھا کسی کو اب نہ چھیڑوں گا کبھی