رشیدہ تھی یوں تو بڑی نیک لڑکی
مگر اس میں یہ ایک عادت بری تھی
وہ ہر چیز کو چھوتی اور چھیڑتی تھی
یہ بات اس کی گھٹی میں گویا تھی
برائی ہو اک بھی تو کیسی بری ہے
بھلائی کی رگ کاٹنے کو چھری ہے
کبھی چائے دانی کا ڈھکنا اٹھاتی
وہ یہ جھانک کر دیکھتی اس میں کیا ہے
کبھی کیتلی کو الٹ کر گراتی
سمجھتی جو دھیان آپ کا بٹ گیا ہے
اسے روکتے بھی تو رکتی وہ کب تھی
بری اس میں عادت پڑی یہ عجب تھی
یہ اک دن کا ہے ذکر قصہ ہوا کیا
تپائی پہ دادی نے عینک کو رکھا
تھی نسوار کی بھی وہیں ایک ڈبیا
رشیدہ نے ان دونوں چیزوں کو تاکا
یہ سوچا کہ دیکھوں گی چیزیں یہ کیا ہے
ذرا دادی اماں ہٹیں یاں سے جائیں
غرض ان کے ہٹتے ہی اس کی بن آئی
اسی وقت آنکھوں پہ عینک لگائی
وہ ڈبیا بھی نسوار کی اس کو بھائی
کہ رنگین ڈھکنے میں تھی خوش نمائی
وہ عینک تو پہلے لگا ہی چکی تھی
ہوئی فکر ڈبیا کو اب کھولنے کی
کہا دل میں مجھ سے کہیں گی یہ دادی
کہ بیٹی نہ چھونا اسے بھول کر بھی
مگر شکر ہے اس گھڑی وہ نہیں ہیں
نہ ابا نہ اماں نہ آپا کہیں ہیں
ذرا کھول کر دیکھ لوں اس میں کیا ہے
ابھی بند کر دوں گی پھر حرج کیا ہے
رشیدہ نے ڈبیا کا ڈھکنا جو کھولا
تو اس میں لگا زور کا ایک جھٹکا
ہوا میں وہ نسوار ہر سمت پھیلی
رشیدہ کے چہرے پہ اڑ اڑ کے آئی
نہ آنکھیں نہ نتھنے نہ منہ اور ٹھوڑی
جگہ ایک بھی اس نے باقی نہ چھوڑی
ہوئی ناک نسوار سے اس کی لت پت
نہ پوچھو بنی اس گھڑی اس کی کیا گت
وہ گھبرا کے ہر ہر طرف خوب دوڑی
مگر پھر بھی چھینکوں سے فرصت نہ پائی
نہ آرام اس کو ملا ایک پل بھی
نہ مل پائی اس کو ذرا دیر کل بھی
وہ گھبرائی اتنی کہ عینک کو پھینکا
چلی پھر وہ پانی سے دھونے کو چہرا
نہایت ہی نازک تھے عینک کے شیشے
وہ گرتی ہی بس ہو گئے ٹکڑے ٹکڑے
ملی اس کو اپنے کیے کی سزا یہ
کہ ملتی ہے پھوٹے ہیئے کہ سزا یہ
پھر اتنے میں دادی کو آتے جو دیکھا
ہوا حال ابتر بہت پھر تو اس کا
رشیدہ اری تجھ کو یہ ہو گیا کیا
یہ دادی نے تیوری چڑھا کر جو پوچھا
تو بس شرم سے گڑ گئیں بی رشیدہ
عجب سوچ میں پڑ گئیں بی رشیدہ
رشیدہ کی حالت ہوئی غیر دکھ سے
رہا کام اس کو خوشی سے نہ سکھ سے
کیا اس نے وعدہ یہ کھا کھا کے قسمیں
کہ اب بھول کر بھی نہ چھیڑوں گی چیزیں
سنا ہے یہ نیرؔ نے لوگوں کا کہنا
رشیدہ نے وعدہ کیا اپنا پورا