مجھے یقیں تھا کہ مذہبوں سے
کوئی بھی رشتہ نہیں ہے ان کا
مجھے یقیں تھا کہ ان کا مذہب
ہے نفرتوں کی حدوں کے اندر
مجھے یقیں تھا وہ لا مذہب ہیں
یا ان کے مذہب کا نام ہرگز
سوائے شدت کے کچھ نہیں ہے
مگر اے ہمدم
یقیں تمہارا جو ڈگمگایا
تو کتنے انساں جو ہم وطن تھے
جو ہم سفر تھے
جو ہم نشیں تھے
وہ ٹھہرے دشمن
تلاش دشمن جو شرط ٹھہری
تو بھول بیٹھے
کہ مذہبوں سے
کوئی بھی رشتہ نہیں ہے ان کا
کہ جس کو طعنہ دیا تھا تم نے
کہ اس کے مذہب کی کوکھ قاتل اگل رہی ہے
وہ ماں کہ جس کا جوان بیٹا
تمہارے وہم و گماں کی آندھی میں گم ہوا ہے
تمہارے بدلے کی آگ جس کو نگل گئی ہے
وہ دیکھو اب تک بلک رہی ہے
وہ منتظر ہے
کوئی تو کاندھے پہ ہاتھ رکھے
کہے کہ ہم نے بھی قاتلوں کی کہانیوں پر
یقیں کیا تھا
کہے کہ ہم نے گناہ کیا تھا
کہے کہ ماں ہم کو معاف کر دو
کہے کہ ماں ہم کو معاف کر دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.