شو کی جٹا
میں نے ماضی کے کھنڈر میں جھانکا
حال کی دھنستی ہوئی ریت پہ سرگرداں رہا
اور اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ دھندلکوں میں کہاں ہے فردا
میرے احساس کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
ایک بھی بوند نہیں شبنم کی
کتنے خوابوں کے گھروندے ٹوٹے
کتنے سپنوں کے جزیرے ڈوبے
ماہ و سال آتے رہے
جاتے رہے
تھپکیاں دے کے سلاتے رہے
جذبوں کو مرے
وادیٔ موہوم میں پہنچاتے رہے
ہچکیاں لیتی رہی حسرت دریا طلبی
روز و شب آگ کی لپٹوں سے گزرتی ہی رہی تشنہ لبی
کوہکن پھر سر کہسار نہ اٹھا کوئی
جوئے کم آب بھی افسانۂ موہوم بنی
وہ تمازت کی صدی آئی
کہ ہر سمت ابلنے لگی جلتی ہوئی ریت
رک گئیں ٹھنڈی ہوا کی سانسیں
پنکھ بھی اودی گھٹاؤں کے جلے
شو کی جٹا سوکھ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.