شعلۂ حنا
یہ رات مشعل ارماں جلانے آئی ہے
مگر نظر میں اندھیرا سا چھا رہا ہے کیوں
وہ غم کدہ جسے ٹھکرا دیا محبت نے
بھلا رہی ہوں مگر یاد آ رہا ہے کیوں
یہ کامیاب ارادے یہ مضمحل لمحے
یہ آج زیست میں آخر تضاد کیسا ہے
ہجوم کیف میں بھی روح بے قرار ہے کیوں
یہ اضطراب دل نامراد کیسا ہے
قریب و دور مسلط ہے خامشی لیکن
فضاؤں میں کسی طوفاں کا شور برپا ہے
یہ رات ہے کہ قیامت یہ تیرگی ہے کہ موت
چراغ جل تو گئے ہیں مگر اندھیرا ہے
غم حیات کی پرچھائیوں سے ڈرنا کیا
میں زندگی کے نئے خواب بن کے آئی ہوں
اب اس دیار میں واپس بھی ہو نہیں سکتی
کہ اپنی پشت پہ دیوار چن کے آئی ہوں
لبوں پہ موج تبسم ہے دل میں گرد ملال
میں خوش تو ہوں مگر آنکھوں سے اشک بہتے ہیں
مری اداس جوانی نے مجھ سے پوچھا ہے
سہاگ رات اسی بے بسی کو کہتے ہیں
نہ باپ بھائی کے ہونٹوں پہ آئی کوئی دعا
نہ ماں نے پیار سے رخصت کیا گلے مل کے
ہتھیلیوں میں ہے مہندی نہ مانگ میں افشاں
مچل کے رہ گئے سینے میں ولولے دل کے
رہ حیات کے ساتھی ترا سہارا ہے
مری وفا مری جرأت کی آبرو رکھنا
ترے لئے میں زمانے کو چھوڑ بیٹھی ہوں
مرے غرور محبت کی آبرو رکھنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.