شور شبستان
میری پسلی میں جما ہے کئی شہروں کا سکوت
جیسے سویا ہو کسی غار میں تہذیب کا بھوت
کو بہ کو کرب مہکتا ہے بدن سے اڑ کر
سمت در سمت بھٹکتی ہے نظر بے مقصد
لوٹ آتا ہوں سر شام جو گھر بے مقصد
سوچتا ہوں کہ میں اب جاؤں کدھر بے مقصد
ہرنیاں پیاس کی دیتی ہیں اذاں بستر میں
اف یہ حساس طبیعت بھی عجب علت ہے
زہر ہر سوچ کا پی جاؤ اگر ہمت ہے
شور کے ناگ سے بچنے کی یہی صورت ہے
ورنہ اس نخل خموشی کے گھنے سائے میں
اپنی پہچان بنا لینا بہت مشکل ہے
کوئی ٹوٹا ہے یہاں اور کوئی بسمل ہے
سب کے دامن میں وہی ہے جو مجھے حاصل ہے
کوہ و صحرا سے پرے اور سمندر سے پرے
کیوں نہ اک شہر طلسموں کا بسا لوں میں بھی
وقت کے ساتھ کوئی کھیل رچا لوں میں بھی
اپنی تنہائی کو دلچسپ بنا لوں میں بھی
چھین کر طفل گداگر سے سکوں کا احساس
رات بھر چین سے سوتی ہے سیاست جیسے
لیکن اس دھند میں روشن ہو بصیرت جیسے
جانتا ہو نہ زمانہ مری نیت جیسے
پھر بھلا کیسے کوئی ڈھونگ رچا پاؤں گا
میں کہ حمام سے باہر بھی برہنہ تن ہوں
سرد صحرائے تنفس کہ سلگتا بن ہوں
یا فقط اپنے شبستاں کے لیے ایندھن ہوں
آسمانوں کی بلندی پہ کھڑا اک یہ سوال
میرے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہے دیکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.