شری کرشنا
دلچسپ معلومات
(20؍ اگست 1947 ء کو کرشن کنج الہ آباد میں کرشن جنم اشٹمی منائی گئی تھی اس جلسہ میںیہ مسدس پڑھا گیا تھا۔ گنور مہراج سنگھ صاحب کمشنر الہ آباد صدر جلسہ تھے)
یہ وہ شب ہے جو نصیحت ہے زمانے کے لئے
یہ وہ شب ہے جو عبادت ہے زمانے کے لئے
یہ وہ شب ہے جو مسرت ہے زمانے کے لئے
یہ وہ شب ہے جو غنیمت ہے زمانے کے لئے
آج کی رات سیہ بخت ہمارا چمکا
آج کی رات امیدوں کا ستارا چمکا
رات بھادوں کی اندھیروں تھی گھٹا چھائی تھی
مژدۂ عیش و خوشی ساتھ لگا لائی تھی
کھلنے والی کلی دل کی نہیں مرجھائی تھی
کنس کی موت اسی پردے میں چھپ آئی تھی
لیا متھرا میں جنم جا کے رہا گوکل میں
پاؤں کے رکھتے ہی امرت ملا جمنا جل میں
وہ کنھیا وہ مرے دل کا لبھانے والا
وہ زمانے میں نئے روپ سے آنے والا
وہ بھجن نغمہ الہام بتانے والا
وہ بڑے پریم سے بنسی کا بجانے والا
جلوۂ نور ازل عالم تنویر میں تھا
یعنی جو کچھ بھی تھا بس خاک کی تعمیر میں تھا
وہ نظر ہی نہیں جس کو نہیں حسرت اس کی
دل وہ کیا دل ہے نہیں جس کو محبت اس کی
کھل گئی دیدۂ بینا پہ حقیقت اس کی
ایک اک شے میں نظر آتی ہے صورت اس کی
شاہد معنی اسرار ظہور قدرت
سب پہ روشن تھا کہ وہ خاص تھا نور قدرت
نند کے لال جسودا کے دلارے موہن
سب کے بگڑے ہوئے سب کام سنوارے موہن
اس طرف بھی نگہ لطف ہو پیارے موہن
کچھ ہماری بھی سنو آ کے ہمارے موہن
ہو گئی زیر و زبر دیکھ لو دنیا دل کی
دل ہی دل میں رہی جاتی ہے تمنا دل کی
دب گئے مٹ گئے مغرور ابھرنے والے
نام سن سن کے ترا ڈرتے تھے ڈرنے والے
حسرت جور میں مرتے رہے مرنے والے
ظلم کو بھول گئے ظلم کے کرنے والے
اٹھ گئی چشم غضب کنس کی ہستی نہ رہی
خود پرستی نہ رہی قہر پرستی نہ رہی
گیان کی راہ زمانے کو دکھائی تو نے
پریم کیا چیز ہے یہ بات بتائی تو نے
غم بھی تجھ کو ملے تکلیف بھی پائی تو نے
دور دکھ ہو گیا مرلی جو بجائی تو نے
اک نئی طرز نئی آن سے بولی بنسی
تٹ پہ جمنا کے عجب شان سے بولی بنسی
کس قیامت کا بھرا سوز ترے ساز میں ہے
رنگ الفت بھی نہاں خوبی انداز میں ہے
یہ بڑے جوش میں ہے اور بڑے ناز میں ہے
گویا جادو اسی جادو بھری آواز میں ہے
راگ کے وقت کوئی دھن میں کوئی لے میں ہے مست
دیکھتا ہوں جسے اچھی طرح وہ نے میں ہے مست
اپنی قوت کو بڑے جوش میں لانے والا
انگلیوں پر وہ گوردھن کو نچانے والا
وہ سداما کی غریبی كا مٹانے والا
کام سنکٹ میں ہر اک شخص کے آنے والا
اب بھی آفاق کے لب پر ہے فسانہ تیرا
یاد ہے یاد زمانے کو زمانہ تیرا
تیرے ہوتے نہ کوئی در پئے آزار رہا
تیرے ہوتے نہ جفا کار جفاکار رہا
بیکسوں کے لئے ہر حال میں غم خوار رہا
دھرم کے واسطے ارجن کا مددگار رہا
کورووں کا وہ غرور اور نشاں تک نہ بچا
رن میں سب قتل ہوئے ایک جواں تک نہ بچا
نہ ہوا ہے نہ کوئی ہوگا ترا ثانی بھی
ایسا یوگی بھی کہیں ایسا کہیں گیانی بھی
دان کو سن کے چھپے شرم سے سب دانی بھی
مٹ گئی دم سے ترے شان ستم رانی بھی
غور سے دیکھیں ذرا لوگ تماشا کیا ہے
تو نے گیتا میں بتایا ہے کہ دنیا کیا ہے
کلک قدرت سے ہے انسان کی تقدیر بنی
خاک کے ذروں سے ہے خاک کی تصویر بنی
قابل دید ہر اک شکل کی تحریر بنی
رشتۂ تار نفس کی نئی زنجیر بنی
آگ ہے خاک ہے پانی ہے ہوا شامل ہے
چار عنصر نہ ہوں تو زیست بہت مشکل ہے
یہ سمجھتے نہیں کم عقل ابھرنے والے
کہ بگڑ جائیں گے اک روز سنورنے والے
کام کرنے کے جو ہیں کر لیں وہ کرنے والے
جینے والے نہیں آخر کو ہیں مرنے والے
کیوں مٹے جاتے ہیں دل اپنا لگانے کے لئے
آئے ہیں دہر میں سب دہر سے جانے کے لئے
زندگی کیا ہے کھلی اس کی حقیقت کیسی
موت کیا چیز ہے کی تو نے نصیحت کیسی
دیش کے واسطے بے لاگ تھی الفت کیسی
تیرے ہی دم سے ہوئی دھرم کی عزت کیسی
دھرم کا آج کہیں ذکر نہیں نام نہیں
کیوں نہ اندھیر ہو موجود یہاں شیام نہیں
آ جا آ جا ادھر اے نند دلارے آ جا
پھر وہ بنسی لئے جمنا کے کنارے آ جا
پردۂ غیب سے ہو جائیں اشارے آ جا
اب نہیں تاب غم ہجر کی پیارے آ جا
آ کنھیا کہ ترے واسطے ہم بسملؔ ہیں
کہنے سننے کے لئے دل ہے مگر بے دل ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.