سیڑھیوں پر دو شامیں
اس سنہری شام جب مندر کی سیڑھی پر
بچھائے دھوپ اوڑھے چھاؤں
ہم تم ساتھ بیٹھے تھے
بہت کچھ کہہ رہا تھا میں
بہت کچھ کہہ رہی تھیں تم
بہت کچھ سن رہے تھے ہم
ہماری پیٹھ کے پیچھے تو سورج ڈھل رہا تھا
پر مرے شانے پہ اک سورج ٹکا تھا
جس کی جگ مگ روشنی میں
آسماں اپنے ورق پر
پھر کوئی دل کش کہانی لکھ رہا تھا
کل پگھلتی شام آڈیٹوریم کی سیڑھیوں پر
ہم تھے آدھے پاس آدھے دور
گم صم ساتھ بیٹھے تھے
نہ تم کچھ کہہ رہی تھیں اور نہ میں کچھ کہہ رہا تھا
ایک چپی تھی جسے ہم سن رہے تھے
لیکن اب کی بار سورج سامنے ہی ڈھل رہا تھا
آسماں پر شام کی پرچھائیاں گہرا رہیں تھی
اور تاریکی فلک کے لوح پر لکھی ہوئی
اک اک عبارت کو مٹاتی جا رہی تھی
آسماں پر وہ کہانی جو ادھوری ہی لکھی تھی
دھیرے دھیرے مٹ رہی تھی
آسماں نیلے سے کالا اور کالا ہو گیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.