سلسلہ
کبھی کبھی اک کرن اجالے کی
میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر
یہ پوچھتی ہے
کہ اور کتنا سفر ہے باقی
ہوا ہے طے کس قدر ہے باقی
یہ راستہ کرب آگہی کا
کہاں سے نکلا گیا کہاں تک
چراغ احساس خود سری کا
کوئی بھی لکھ کر کوئی بھی پڑھ کر نہیں بتاتا
نصیب کیسا ہے آدمی کا
یقین فکر و نظر ہے باقی
سراب جاں رہ گزر ہے باقی
مگر کسی کو پتہ نہیں ہے حیات انساں ہے کتنی باقی
بس ایک میں ہوں کہ کرب احساس میرا سایہ
یہ ذات کا غم جو ساتھ آیا
گمان کی آندھیوں نے اکثر مجھے کھلایا
نظر نظر اک چراغ آنکھوں میں جھلملایا
یقیں کی صورت
زمیں کی صورت
تمہاری روشن جبیں کی صورت
میں اک صداقت
چراغ راحت
وجود رفعت
میں ضو فشاں ہوں
فنا کی وادی سے جسم میرا گزر بھی جائے
مرا بدن لمحہ لمحہ بن کر بکھر بھی جائے
یہ کرب فکر و نظر یہ روشن ضمیر میرا
یہ زخم تحقیق جو بدن پر لکھا ہوا ہے
یہ زہر اور اک جو رگوں میں مچل رہا ہے
جسے پیا ہے سمجھ کے آب حیات میری جسارتوں نے
ہر ایک سینے میں بیج بوتا رہے گا میری تجلیوں کے
کھلائے گا سانس سانس تحریر روشنی کی
سفر مری کاوش نظر کا
یقین کا رفعت ہنر کا
نہ ختم ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.